• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کے لیے وقف شدہ زمین کو اپنے استعمال میں لانے کا حکم

استفتاء

یہ ہمارے ملتان روڈ سے جو کمبر روڈ جاتا ہے یہاں کھچی ٹاؤن ہے،  یہاں پر میرے پاس 18 مرلے جگہ تھی میں نے کہاکہ میں نے کیا کرنا  ہے اس زمین کا،اللہ کا شکر ہے میرے پاس بہت کچھ ہے تو میں نے سوچا کہ مسجد، مدرسہ بنا دوں گا اس لیے میں نے وہ نیت کی ہوئی ہے اور زبان سے  بھی یہ الفاظ کہے ہیں کہ “میں نے یہ جگہ وقف کردی ہے”  لیکن اس پر ابھی تک ایک اینٹ بھی نہیں رکھی اور ایک کلو مٹی بھی نہیں ڈالی نہ کوئی نماز نہ اور  کچھ،   لیکن اس کے آس پاس مسجد ابراہیم ہے اور دو تین مساجد اور  ہیں  جوبالکل ساتھ ساتھ ہیں ایک دو منٹ کے فاصلے پر ہے اس پلاٹ  سے ۔ایک منٹ/ڈیڑھ منٹ دو منٹ کے فاصلے  پر ہے تو کئی لوگوں نے کہا  جہاں ضرورت ہے وہاں بنادیں میں چپ ہوگیا اور میں نے دل میں سوچا کہ میں  تو وقف کرچکا ہوں ۔

بیٹے نے کہا تھا ابو جی یہ 18 مرلے   جب تک آپ مسجد نہیں بناتے تب تک  میرے حوالے کر دو میں اس میں کیکر کے درخت لگا دیتا ہوں دو تین سال بعد بڑے ہو جائیں گے تو  کاٹ کر بیچ دوں گاکیا ایسا کرنا جائز ہے؟

وہاں پر نزدیک نزدیک کوئی ضرورت بھی نہیں ہے کافی سال اگر اس  جگہ کو  تبدیل نہ بھی کریں یعنی کہ یہی  وقف نامی رہے  تو پھر بھی نزدیک نزدیک اس کی تعمیر کی ضرورت نہیں ہے ۔سوال یہ ہے کہ:

1۔ کیا ہم اس جگہ کو بیچ کر جہاں مدرسہ، مسجد بن رہی ہو اس میں پیسے  ڈال سکتے ہیں؟

2۔دوسری جگہ جہاں مسجد، مدرسہ کی  ضرورت ہو وہاں زمین خرید کر بناسکتے ہیں؟

3۔کیا اب اس 18 مرلے کو فی الحال  اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں ؟ میں نے ہی زمین وقف کی ہے میں یا میرا بیٹا  اس زمین کو استعمال میں لا سکتا ہے جب تک فارغ پڑی ہوئی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں آپ 18 مرلے جگہ فروخت کر کے اس کی قیمت جہاں مسجد، مدرسہ بن رہا ہو وہاں دے سکتے ہیں۔

2۔مذکورہ صورت میں آپ 18 مرلے جگہ فروخت کر کے کسی دوسری جگہ مسجد، مدرسہ کی ضرورت میں دے سکتے ہیں یا زمین خرید کر مسجد، مدرسہ بنا سکتے ہیں۔

3۔جب تک یہ زمین فارغ پڑی ہوئی ہے اس وقت  تک اسے اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں تاہم اس صورت  میں ایسا کریں کہ اس استعمال کرنے کا ماہانہ یا سالانہ جو کرایہ بنتاہو اتنا کرایہ کسی مسجد، مدرسہ میں دے دیں۔

توجیہ: امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک محض زبان سے زمین وقف کر دینے سے مسجد کا وقف تام نہیں ہوتا اور نہ ہی زمین مالک کی ملکیت سے نکلتی ہے بلکہ مسجد کا وقف تام ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہاں باجماعت نماز ادا کرلی جائے مذکورہ صورت میں چونکہ اس جگہ میں نماز باجماعت ادا نہیں کی گئی لہذا جب تک مسجد کی تعمیر شروع نہیں ہوتی تو آپ وہ جگہ فروخت کرکے اس کی قیمت کسی بھی مسجد، مدرسہ یا اس کے بدلے کسی دوسری جگہ مسجد،مدرسہ کے لیے زمین خرید کر مسجد،مدرسہ بنا سکتے ہیں تاہم امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک وقف کے تام ہونے کے لیے زبان سے وقف کر دینا کافی ہے،اس لیے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے قول کی رعایت رکھتے ہوئے خود استعمال کرنے کی صورت میں اس کا کرایہ کسی مسجد،مدرسہ میں دیدینا احوط ہے۔

شامی(6/546)میں ہے:

(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله: جعلته مسجداً) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعة

وفي الشامية: قوله (بجماعة) لأنه لابد من التسليم عندهما……….واشتراط الجماعة لأنها المقصود من المسجد ولذا شرط أن تكون جهرا بأذان وإقامة إلا لم يصر مسجداقال الزيلعي: وهذه الرواية هي الصحيحة وقال في الفتح: ولو اتحد الإمام والمؤذن وصلى فيه صار مسجدا بالإتفاق لان الاداء علي هذا الوجه کالجماعة قال في النهر: وإذا قد عرفت أن الصلاة فيه اقيمت مقام التسليم علمت أنه بالتسليم إلى المتولى يكون مسجدا دونها أي دون الصلاة وهذا هو الاصح كما في الزيلعي وغيره وفي الفتح وهو الأوجه لأن التسليم إليه يحصل تمام التسليم إليه تعالى

عالمگیری(2/408)میں ہے:

رجل وقف وقفا ولم يذكر الولاية لأحد قيل الولاية للواقف هذا عند أبي يوسف لأن عنده التسليم ليس بشرط، أما عند محمد فلا يصح الوقف وبه يفتى، كذا في السراجية

الاصل للشیبانی (12/107) میں ہے:

‌لو ‌أن ‌رجلا ‌بنى أرضا له مسجدا ولم يأذن لأحد أن يصلي فيه ولم يخل بين الناس وبينه يصلون فيه حتى باعه أو وهبه جاز ما صنع من ذلك. وإن مات كان ميراثا. أرأيت لو لم يفرغ من بنائه كله حتى بنى بعضه وبقي بعضه ثم مات ألم يكن ميراثا؟ أو بدا له وقد بنى بعضه أن يرجع فيه ألم يكن له ذلك؟ له أن يفعل ذلك كله. وإن مات كان ميراثا. وإن بناه وأذن للناس في الصلاة فيه أو خلى بينهم وبينه يصلون فيه ولم يمنعهم من ذلك فصلوا فيه صلاة واحدة جماعة كما يصلى في المساجد أو أكثر من صلاة لم يكن له بعد ذلك أن يبيعه ولا يهبه، وإن مات  لم يكن ميراثا؛ لأن قبض هذه الأشياء وإخراجها من يدي صاحبها مثل المسجد والخان والمقبرة ونحو ذلك إنما يكون بهذا وشبهه. وإنما يكون قبضه وإخراجه من يده بمثل هذا. فإذا كان فيه بعض ما وصفت لك خرج من ملكه وصار لله على ما جعله

المبسوط للسرخسی (12/34) میں ہے:

قال (‌وإن ‌جعل ‌أرضا ‌له ‌مسجدا لعامة المسلمين وبناها وأذن للناس بالصلاة فيها وأبانها من ملكه فأذن فيه المؤذن وصلى الناس جماعة صلاة واحدة، أو أكثر لم يكن له أن يرجع فيه، وإن مات لم يكن ميراثا)؛ لأنه حرزها عن ملكه وجعلها خالصة لله تعالى قال الله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18]. وقال  عليه الصلاة والسلام  «من بنى لله مسجدا، ولو كمفحص قطاة بنى الله تعالى له بيتا في الجنة»، ولا رجوع له فيما جعله لله تعالى خالصا كالصدقة التي أمضاها، ثم عند أبي يوسف يصير مسجدا إذا أبانه عن ملكه وأذن للناس بالصلاة فيه، وإن لم يصل فيه أحد كما في الوقف على مذهبه أن الوقف يتم بفعل الواقف من غير تسليم إلى المتولي، وعند محمد لا يصير مسجدا ما لم يصل الناس فيه بالجماعة، بنى على مذهبه أن الوقف لا يتم إلا بالتسليم إلى المتولي وعن أبي حنيفة فيه روايتان في رواية الحسن عنه يشترط إقامة الصلاة فيه بالجماعة، وفي رواية غيره عنه قال إذا صلى فيه واحد يصير مسجدا، وإن لم يصل بالجماعة

فتاوی تاتارخانیہ (8/12)میں ہے:

قال محمد: التسلیم الی المتولی شرط صحة الوقف حتی أن علی قوله لو لم یسلم الوقف الی المتولی لایزول عن ملكه فله أن یرجع فی ذلک وان مات یورث عنه. وفی الغیاثة: ویجوز بیعه. وقال أبویوسف: التسلیم الی المتولی لیس بشرط ویکتفی فيه بالاشهاد. وفی الغیاثة: لایجوز بیعه ولایورث عنه

فتاوی محمودیہ(14/279)میں ہے:

سوال: ایک صاحب خیر نے تقریبا ایک بیگہ زمین وقف کیا اور یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ میری زمین میں مسجد و مدرسہ دونوں ہونے چاہیے،  ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اہل مدرسہ نے تھوڑی سی زمین میں مسجد کی بنیاد بھی رکھ دی حالانکہ مدرسہ کے حالات کے پیش نظر اس جگہ مسجد کی بنیاد مناسب نہیں تھی۔  مدرسہ کی تنگی کو دیکھتے ہوئے واقف صاحب نے مسجد کی بنیاد کی جگہ جو کہ ابھی صرف بنیاد کی حد تک ہے اس پر کسی قسم کی کوئی تعمیر نہیں ہوئی ہے اور نہ ایسا کوئی کام کیا گیا ہے جو مسجد ہونے پر دال ہو  یہاں تک کہ آج تک کسی نے بھی اس میں نماز نہیں پڑھی، مدرسے کی تعمیر کے اجازت دے دی ہے۔  اب اس وقت اہل مدرسہ، مدرسہ کی تنگی کی وجہ سے نہایت پریشان ہیں لہذا شرعاً  جواز کی جو صورت ہو تحریر فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

الجواب: اذا بنی مسجدا لا یزول ملكه عنه حتی یفرزه عن ملكه بطریقه ویأذن بالصلوة فيه ویصلی فيه واحد وفی رواية:شرط صلوة بجماعة جهرا بأذان واقامة حتی لو کان سرا بأن کان بلا أذان ولا اقامة لا یصیر مسجدا اتفاقا لأن أداء الصلوة علی الوجه المذکور بالجماعة وهذه الرواية صحيحة کما فی الکافی وغیره۔عبارت منقولہ سے معلوم ہوا کہ وہ جگہ ابھی مسجد نہیں بنی، واقف کو حق ہے کہ اگر وہاں مسجد بنانا مناسب نہیں تو اس کی جگہ مدرسہ بنانے کی اجازت دے دے۔

احسن الفتاویٰ (6/423) میں ہے:

سوال: زید نے اپنا مکان مسجد کو دے دیا، اور اسٹامپ پر دو گواہوں کے سامنے لکھوا دیا، اب زید کا انتقال ہو گیا تو کیا اب اس کی زوجہ انکار کر سکتی ہے کہ میں مکان مسجد کو نہیں دیتی؟ جبکہ ابھی قبضہ مکان پر زید کی بیوی کا ہے اور زید کی بیوی نے اس مکان میں سے اپنا حصہ بھی مسجد دیدیا تھا اور کاغذ لکھوا کر اپنا انگوٹھا ثبت کر دیا تھا، تو کیا مسجد کو قبضہ دینے سے پہلے زید کی بیوی کا انکار کرنا اور مکان مسجد کو نہ دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: صحت وقوف کے لیے اشتراط قبض متولی میں اختلاف ہے، دونوں قول مرجح و مفتی بہ ہیں، عدم اشتراط احوط و اسہل و انفع و ارجح ہے، مع ہذا جانبین کی حاجت و حالت پر غور کر کے کسی جانب فتویٰ دینا چاہیے۔

قال التمرتاشي: و لا يتم حتى يقبض و يفرز و يجعل آخره لجهة لا تنقطع.

و قال الحصكفي: هذا بيان شرائط الخاصة على قول محمد لأنه كالصدقة و جعله أبو يوسف كا الإعتاق و اختلف الترجيح و الأخذ بقول الثاني أحوط و أسهل بحر، و في الدرر و صدر الشريعة و به يفتى و أقره المصنف.

و قال الشامي تحت قوله: (هذا بيان) و اختاره المصنف تبعاً لعامة المشائخ و عليه الفتوى و كثير من المشائخ أخذوا بقول أبي يوسف و قالوا إن عليه الفتوى و لم يرجح أحد قول الإمام قوله: (و اختلف الترجيح) مع التصريح في كل منهما بأن الفتوى عليه لكن في الفتح أن قول أبي يوسف أوجه عند المحققين. (رد المحتار:4/351)

و قال الطحطاوي: قوله: (واختلف الترجيح) أي و الإفتاء أيضاً كما في البحر و مقتضاه أن القاضي و المفتي يخيران في العمل بأيهما كان و مقتضى قولهم يعمل بأنفع للوقف أن لا يعدل عن قول الثاني لأن فيه إبقاءه بمجرد القول فلا يجوز نقضه. (حاشية الطحطاوي: 2/532)

مسائل بہشتی زیور (2/187)میں ہے:

مسجد میں وقف اس سے لازم ہوتا ہے کہ مسجد ہر اعتبار سے مالک کی ملکیت سے نکل جائے اور واقف کی اجازت کے بعد اس میں اذان  واقامت کے ساتھ باجماعت نماز پڑھی جائے اگرچہ ایک آدمی ہو جس نے اذان کہی اور امامت بھی اس نے کرائی کوئی اور نہ آیا تو اس کی تنہا ادائیگی جماعت کی مثل ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved