- فتوی نمبر: 34-167
- تاریخ: 09 دسمبر 2025
- عنوانات: عبادات > نماز > سجدہ سہو کا بیان
استفتاء
ایک شخص امام کے ساتھ شروع سے جماعت میں شامل ہوا ۔ لیکن خود کو مسبوق خیال کرکے امام کے ساتھ سلام پھیرنے کے بجائے کھڑا ہوگیا ۔ رکوع کرنے سے پہلے اسے یاد آگیا کہ میں نے امام کے ساتھ ہی سلام پھیرنا تھا ۔ یہ سوچ کر وہ فورا تشہد میں بیٹھ گیا ۔اب اس کے لیے سجدہ سہو کا کیا حکم ہے ؟ سجدہ سہو اگر کرنا ہے تو دوبارہ التحیات پڑھنی ہوگی ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جیسے ہی یاد آجائے فورا بیٹھ جائے اور سلام پھیر لے سجدہ سہو کی ضرورت نہیں، لہٰذا دوبارہ التحیات پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں۔
توجیہ : مذکورہ صورت میں جب مقتدی نے امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرا تو لاحق کے حکم میں ہو گیا اور لاحق سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس پر سجدہ سہو نہیں آتا ۔
شامی (2/414) میں ہے:
(و) اعلم أن (المدرك من صلاها كاملة مع الإمام، واللاحق من فاتته) الركعات (كلها أو بعضها) لكن (بعد اقتدائه) بعذر كغفلة وزحمة وسبق حدث وصلاة خوف ومقيم ائتم بمسافر، وكذا بلا عذر؛ بأن سبق إمامه في ركوع وسجود فإنه يقضي ركعة وحكمه كمؤتم فلا يأتي بقراءة ولا سهو ولا يتغير فرضه بنية إقامة
(قوله واعلم أن المدرك إلخ) حاصله أن المقتدي أربعة أقسام: مدرك، ولاحق فقط، ومسبوق فقط، ولاحق مسبوق؛ فالمدرك لا يكون لاحقاً ولا مسبوقاً، وهذا بناء على تعريفه المدرك تبعا للبحر والدرر بمن صلاها كاملة مع الإمام: أي أدرك جميع ركعاتها معه، سواء أدرك معه التحريمة أو أدركه في جزء من ركوع الركعة الأولى إلى أن قعد معه القعدة الأخيرة، سواء سلم معه أو قبله؛ وأما على ما في النهر من تعريفه المدرك بمن أدرك أول صلاة الإمام فإنه قد يكون لاحقا، وعليه فيقال: المقتدي إما مدرك أو مسبوق، وكل منها إما لاحق أو لا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved