- فتوی نمبر: 34-181
- تاریخ: 15 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان > مہر کا بیان
استفتاء
زید نے اپنی بیوی کے نام 1973 میں ایک زمین کا انتقال کیا۔ 1983 میں یہی زمین اپنی بہو کو حق مہر کے طور پر لکھوادی۔ جس کے لیے باضابطہ اسٹام پیپر پر تحریری دستاویز بھی مرتب کی گئی جو کہ استفتاء کے ساتھ لف ہے اور اس میں یہ الفاظ درج ہیں کہ “کنویں والی زمین میں سے 20 کنال اراضی میں خدیجہ کو دیتا ہوں۔اس اراضی کی یہ بالکل مالکہ ہے۔ اور اس اراضی کی آمدنی تا عمر اس کی ہے اور جو کچھ وہ چاہے اس اراضی کے ساتھ کر سکتی ہے یعنی بیع یا رہن کی مختار ہے”۔بعد میں زید نے اسی زمین کی وصیت اپنی بیٹیوں کے لیے کر دی اور زید کے انتقال کے بعد 2003 میں زید کی بیوی نے اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس زمین کی رجسٹری اپنی بیٹیوں کے نام کر دی اور انکو قبضہ دے دیا کہ اس پر اپنا گھر بنانا چاہیں تو بنالیں ۔ زید کی بہو کا انتقال ہو چکا ہے،بہو کے بیٹوں (یعنی زید کے پوتوں) کا دعوی ہے کہ یہ زمین ہماری والدہ کو حق مہر میں ملی تھی لہذا اس پر ہمارا حق ہے۔جبکہ زید کی بیٹیوں کا کہنا ہے کہ یہ ہماری زمین ہے کیونکہ یہ زمین والد نے اپنی بہو کو حق مہر میں دینے سے پہلے ہماری والدہ کو دے دی ہوئی تھی۔ براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ اس زمین کا شرعا کون حقدار ہے؟
زید کی بیوی کے علم میں تھا کہ بہو کے نام حق مہر میں 20 کنال زمین لکھی ہے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی والی زمین لکھی ہے۔
کنویں والی زمین کا کل رقبہ 36 کنال ہے جس میں 30 کنال پہاڑی اور 6 کنال کھیتی باڑی والی زمین ہے اور سب کی سب زید نے اپنی بیگم فاطمہ کے نام کر دی تھی۔
زید نے اپنی زندگی میں بیٹوں کو گھر دیے اور بیوی کو مذکورہ زمین دی۔ جس کی وصیت ماں نے بیٹیوں کے لیے کی تھی ۔ ان کے وفات پا جانے کے بعد 120 کنال زمین ورثاء نے تقسیم کی اور اس میں بیٹیوں کا جتنا حصہ بنتا تھا اس سے کم دیا گیا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں کنویں والی زمین جو زید نے اپنی بہو کے نام مہر کے طور پر تحریر کی ہے وہ زمین بہو کی ملکیت ہے اور بہو کی وفات کے بعد یہ زمین بہو کے ورثاء میں تقسیم ہوگی اور اگر کسی وجہ سے زمین دینا ممکن نہیں تو اس زمین کی موجودہ قیمت زید کی بہو کے ورثاء کو دی جائے گی۔
توجیہ: زید نے اگرچہ زمین بہو کو مہر میں دینے سے پہلے اپنی بیوی کے نام کر دی تھی لیکن زندگی میں کوئی چیز ورثاء کو دینا ” ہبہ “کہلاتا ہے اور ہبہ میں مکمل تصرف کا اختیار دینا اور اپنے تصرف سے بالکل فارغ کرنا ضروری ہوتا ہے چونکہ زید نے بیوی کے نام کرنے کے بعد اس زمین میں تصرفات کیے جیسا کہ بہو کے نام بطور مہر تحریر کرنا اور بیٹیوں کے لیے وصیت کرنا جس سے معلوم ہو رہا ہے کہ زید نے بطور ملک یہ زمین اپنی بیوی کو نہیں دی تھی بلکہ کسی اور مصلحت سے بیوی کے نام لگوائی تھی لہذا یہ زمین زید کی شمار ہوگی اور جب زید نے یہ زمین اپنی بہو کو مہر میں دی تو وہ زمین بہو کی ہو گئی اور مہر میں اس چیز کا دینا واجب ہوتا ہے جو مہر میں ذکر کی گئی ہو اگر وہ چیز دینا ممکن نہ ہو تو پھر اس کی قیمت دینا واجب ہوتا ہے۔
شامی (3/143) میں ہے:
[فرع] في الفيض: ولو أعطى ضيعة بمهر امرأة ابنه ولم تقبضها حتى مات الأب فباعتها المرأة لم يصح إلا إذا ضمن الأب المهر ثم أعطى الضيعة به فحينئذ لا حاجة إلى القبض.
شامی ( 5/610) میں ہے:
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل.
خیر الفتاویٰ (4/534)میں ہے:
سوال: محمد سلیم کا نکاح ہوا،اس وقت 30 ہزار روپے اور ایک مرلہ زمین حق مہر مقرر ہوا،اب سلیم اپنے والد ابراہیم سے کہتا ہے کہ ایک مرلہ حق مہر زمین ادا کرو،شریعت کے رو سے فرمائیں کہ آیا مہر خاوند کے ذمے ہے یا اس کے والد کے ذمہ؟ جبکہ والد نے زبانی طور پر کوئی قید و شرط نہیں لگائی کہ میں ادا کروں گا۔البتہ نکاح نامہ میں والد کی اجازت سے ایک مرلہ مکان کی زمین بطور مہر کے لکھی گئی تھی۔
جواب: بر تقدیر صحت واقع صورت مسئولہ میں والد کو چاہیے کے مکان کا جتنا حصہ بطور مہر لکھوایا تھا وہ یا اس کی قیمت وہ محمد سلیم کی زوجہ کو ادا کرے۔مہر کے خانہ میں لکھوانا ایک قسم کی ضمانت ہے اور ولی شرعاً مہر کا ضامن بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved