• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شوہر کےنکاح کے وقت کیے وعدے پورے نہ کرنے کی وجہ سے کیا عورت خلع لے سکتی ہے؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان دین متین اس بارے میں کہ ایک شخص (زید)  نے ایک عورت (کبریٰ)  سے نکاح کیا۔ کبری لاہور کی رہنے والی تھی اور زید کا آبائی گاؤں مظفر آباد کشمیر  میں تھا بوقت نکاح زید لاہور میں کئی سالوں سے کام کے سلسلے میں مقیم تھا،  کبری کے والد نے بوقت نکاح زید سے وعدہ لیا تھا کہ آٹھ سال تک کبری کو لاہور یا اس کے مضافات میں ہی رکھے گااس کے بعد جہاں چاہے لے جا سکتا ہے، اس پر باقاعدہ تحریر لکھ کر زید کے دستخط لیے گئے  (وعدہ نامہ کی فوٹو کاپی بطور ثبوت ساتھ لف ہے)  لیکن نکاح کے چار /پانچ سال بعد والدہ کی خدمت کے لیے عہد توڑ کر کبریٰ  کو مجبور کر کے زید  اپنے آبائی گاؤں لے گیا جہاں کبری کو بہت مشکل حالات پیش آئے ،اس کے دینی امور میں بہت رکاوٹیں ڈالی گئیں، پردہ وغیرہ کی بے حرمتی کی گئی۔اس ناروا سلوک اور سفلی حرکات (جادو ،ٹونا وغیرہ ) کی وجہ سے کبری تین سال کے عرصے میں شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے بیمار ہو گئی، شادی کے آٹھ سال بعد اللہ تعالی نے اولاد نرینہ سے نوازا لیکن کبری بوقت ڈلیوری ڈاکٹروں کے نزدیک ممنوع رسولی کے آپریشن کے سبب وفات پا گئی یہ غلطی تقدیر کے سبب سمجھتے ہوئے کبری کے گھر والے خاموش  ہوگئے۔

زید  نے بچے کو کبری کی والدہ کے سپرد کر دیا۔ بچہ ایک سال تک لاہور میں نانی کی پرورش میں رہا اسی دوران  زید اور اس کے گھر والوں نے بچے کی پرورش کی خاطر کبری کی چھوٹی بہن صغریٰ  کا رشتہ مانگا  لیکن اس رشتے پر نہ صغریٰ راضی تھی اور نہ ہی اس کے والدین۔کیونکہ کبری  کے ساتھ کیا گیا  سلوک ان کو  معلوم تھا  لیکن زید اور اس کے گھر والوں کے بے حد اصرار کے بعد صغریٰ  نے اس شرط پر رشتہ قبول کیا کہ وہ مستقل ہمیشہ رہنے کے لیے کشمیر نہیں جائے گی صرف ملنے جایا کرے گی۔ زید اور اس کے گھر والوں نے یہ شرط مان  کر صغری سے نکاح کر لیا اور زید نے پھر گواہوں اور ضامن کی موجودگی میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر پچھلی  غلطی پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگی اور صغری کو مستقل طور پر مظفر آباد نہ لے جانے کا وعدہ کیا۔بصورت دیگر  صغریٰ نکاح پر قطعاً رضامند نہیں تھی۔

نکاح کے بعد چار/ پانچ سال تک لاہور ہی میں بہت اچھا وقت گزارا لیکن جب صغری کے والد انتقال کر گئے تو زید نے پھر یہ کہنا شروع کر دیا کہ میرا معاہدہ ختم ہو گیا ہے حالانکہ یہ وعدہ والد کی طرف سے نہیں بلکہ صغری کی طرف سے تھا  اور حالانکہ اس دوران صغری ملنے کے لیے مظفرآباد جاتی رہی اور حتیٰ المقدور زید کی والدہ کی خدمت کرتی رہی لیکن اس کے ساتھ بھی ناروا سلوک رکھا جاتا رہا اس کے باوجود زید اس کو  مظفر آباد مستقل رہائش کے لیے مجبور کرتا کبھی خرچہ بند  کر کے  اور کبھی  بول چال  بند کر کے  مگر صغری کیے گئے  وعدے کے مطابق مستقل وہاں جانے کے لیے نہ مانی اب جب کہ زید کی والدہ بھی وفات پا چکی ہیں اور زید کا بچہ 10 سال کا ہو چکا ہے اور زید کی غرض بچے کی پرورش کروانے کی پوری ہو چکی ہے صغری کو اس کی والدہ کے گھر چھوڑ کر( علاوہ اس کے کہ اس وقت ان کے درمیان کوئی لڑائی جھگڑا ہوا ہو) بلکہ خود بھی اس کے ساتھ ہی کچھ دن سسرال  میں رہا۔پھر اچانک ایک دن دکان پر لے جانے کے بہانے اپنے کیے ہوئے وعدے سے انحراف کر کے بچہ کو دھوکا دے کر گاڑی میں بیٹھا کر مظفر آباد لے گیا۔

اس کے بعد زید نے تمام رابطے منقطع کر دیے بعد ازاں  صغری کے گھر والوں کے  زید اور بچے کے پیچھے جانے پر نامناسب رویہ دکھایا اور  زید اپنے گھر سے بھی بچے کو لے کر بھاگ گیا دو دن بعد اپنے رشتہ داروں کو لے کر آیا اور کہا اگر اپنی بیٹی کو  بسانا  چاہتے ہو تو خود یہاں چھوڑ جاؤ اور یہ کہ زید  کبھی بھی ملنے ملانے لاہور نہیں جائے گا۔

زید کے اس طرح تعلق منقطع کرنے کے باوجود کچھ عرصہ بعد پھر صغری کے گھر والوں میں سے کچھ لوگ دور دراز کا سفر کر کے ملنے گئے لیکن زید بچے کو لے کر کمرہ کے اندر چھپ  گیا نہ خود ملا اور نہ بچے کو ملنے دیا  اور نہ دروازہ کھولا  اب ایک سال سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے نہ وہ آتا ہے نہ کوئی رابطہ کرتا ہے اور نہ بیوی کا  نفقہ  دیتا ہے جبکہ خود ہی  اس کو اس کی والدہ کے گھر چھوڑ کر گیا ہے اور اپنے زعم میں بیوی کو نافرمان اور ناشزہ سمجھتا ہے حالانکہ وعدہ خلافی  کرنے والا تو خود زید ہے جس نے دو مرتبہ گواہوں  اور ضامن  کی موجودگی میں کیا ہوا وعدہ توڑا ہے پہلی مرتبہ تو والدہ کی خدمت کا عذر تھا  جس کو کبری نے نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کیا لیکن اب نہ  والدین حیات ہیں اور نہ ہی کوئی اور عذر  ہے  محض ایک ضد ہے اگر  عذر ہوتا تو دونوں شادیوں سے پہلے 35 سال کی عمر تک لاہور میں  مقیم نہ رہتا   یا پھر دوسری  مرتبہ شادی کے لیے لاہور میں  مستقل  رہنے کا وعدہ نہ کرتا۔

صغریٰ کا مؤقف:

اللہ تعالی نے مرد کو صنف ِ نازک پر اس کے حقوق کی نگرانی کے لیے حکمران بنایا ہے اور اس کے ساتھ کیے گئے وعدے کو پورا کرنا اس کا حق ہے اگر زید وعدے  ميں رد وبدل یا ترمیم چاہتا ہے تو ایسے ہر معاملہ میں جو فریقین کے درمیان طے پایا ترمیم کی صورت  میں دوسرے  فريق  کی طیب نفس کے ساتھ رضامندی ضروری ہے ، نہ کہ حکمرانی کا یہ مطلب ہے کہ فریق ثانی  کو حقیر اور کمزور سمجھتے ہوئے زد وکوب  کر کے ، بول چال بند کر کے یا  خرچہ روک کر ناشزہ کا لقب دے کر اس کو اپنے حقوق چھوڑنے پر مجبور کرے۔اگر یہی طریقہ روا رکھا جائے تو ہر وہ شخص جس کا کہیں نکاح نہ  ہوتا ہو فی الوقت نکاح کرنے کے لیے عہد معاہدہ کر کے شادی کے بعد وعدہ توڑ کر اس کی خلاف ورزی پر  مجبور کرے گا اور ظاہر  ہے کہ اس طریقہ سے معاشرے میں فساد برپا ہوگا اور بار بار وعدہ خلافی کرنے والا تو “اذا عاهد غدر”  حدیث کی رو سے عملی  نفاق  کا مرتکب ہے جو وعدہ خلافی کرنے کا عادی ہے وہی قابل گرفت اور طعن  ہے ۔فریق ثانی  کیسے نافر مان اور ناشزہ ہے؟

صنفِ نازک کے حقوق کے بارے میں مجدد ملت  حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ  فرماتے ہیں:

حقوق العباد کے عدم اہتمام کا ایک سبب یہ ہے کہ تاکدِ  حق کا سبب  صرف عظمت پر منحصر کر لیا ہے جس کی عظمت دل میں ہو اس کے  حقوق تو ادا کرتے ہیں اور جس کی عظمت قلب  میں نہ ہو اس کے حقوق کا  لحاظ نہیں رکھتے اور کسی کی عظمت نہ ہونے کا  مطلب یہی ہے کہ اس کو اپنے سے حقیر سمجھا جاتا ہے اور یہی حاصل ہے تکبر کا اسی کو اللہ تعالی نے ويبغون في الارض بغير الحق میں فرمایا ہے۔(خیر الارشاد لحقوق العباد)

اور جانبین  کے درمیان کیا گیا  وعدہ بھی حقوق العباد میں شامل ہے جس کے بارے میں مفسر قرآن حضرت مولانا شفیع عثمانیؒ  ان العهد كان مسئولا کے تحت فرماتے ہیں:

پہلی قسم کے معاہدات (جو اللہ اور بندے کے درمیان ہوں)  کو پورا کرنا انسان پر واجب ہے اور دوسری قسم کے جو معاہدات خلاف شرع نہ ہوں ان کا پورا کرنا بھی واجب ہے اور جو خلاف شرع  ہوں ان کا فریق ثانی کو اطلاع کر کے ختم کردينا واجب  ہے  جس معاہدے کو پورا کرنا واجب ہے اگر کوئی فریق پورا نہ کرے تو فریق ثانی کو حق حاصل ہے کہ عدالت میں مرافعہ کر کے اس کو پورا کرنے پر مجبور کرے۔(معارف القرآن)

صغری کے گھر والوں کی طرف سے پوری کوشش کے باوجود مصالحت کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی، زید کے والدین تو  وفات چکے ہیں جب تک والدہ زندہ تھیں  زید نے یہ قدم نہیں اٹھایا اگر وہ زندہ ہوتیں  تو کبھی اس کو اجازت نہ دیتی کیونکہ کبری کے ساتھ نارواسلوک  اور سفلی  حرکات (جادو ٹونا  وغیرہ ) کی وجہ سے زید کے پیر صاحب نے بھی اس کو مظفر آباد گاؤں کو خیر آباد کہنے کا حکم دیا تھا۔باقی  رہ گئے بہن بھائی وغیرہ تو انہی کے صغریٰ کے  خلاف اکسانے پر زید  نے یہ قدم اٹھایا ہے ان تمام ناموافق حالات کی وجہ سے صغریٰ مظفرآباد جانے پر قطعاً آمادہ نہیں بلکہ وہاں کا خیال ہونے پر بھی گھبراہٹ سے  بیمار ہو جاتی ہے ان حالات کے پیش نظر اور حوالہ جات کی روشنی میں کیا صغری کا پیش کیا گیا موقف درست ہے ؟ اور کیا اس کو حق حاصل ہے کہ وہ بقول مولانا شفیع عثمانی ؒ  کے عدالت میں مرافعہ کر کے زید کو وعدہ پورا کرنے پر مجبور کرے اور زید کے  نہ  ماننے کی صورت میں  کیا وہ خلع  لے سکتی ہے؟

اقرار نامے  کی  عبارت:

منکہ زید ولد خالد  ساکن ****تحصیل وضلع ****  کا ہوں، حال مقیم: مکان نمبر 291 محلہ *** ،****کا ہوں اور بقائمی  ہوش وحواس خمسہ وثبات  بلا جبر واکراہ غیرے ترغیب بر  رضامندی خود حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ:

  • یہ کہ من محلف مندرجہ بالا پتہ کا رہائشی ہوں۔
  • یہ کہ من محلف حلفا اقرار کرتا ہوں کہ میں مسماۃ  کبریٰ بی بی دختر  بکر ساکن **** سے آج 2007-09-27 کو بمطابق  سنت محمدی  نکاح کر رہا ہوں ۔
  • یہ کہ میں حلفا اقرار کرتا ہوں کہ میں شادی کے بعد عرصہ آٹھ سال تک اپنی  کبریٰ بی بی کے ساتھ لاہور یا اس کے مضافات میں رہائش رکھوں گا اور کہیں باہر رہائش تبدیل نہ کروں گا۔
  • یہ کہ میں حلفاً   اقرار کرتا ہوں کہ  میں اپنی بیوی مسماۃ  کبریٰ بی بی کو مکمل شرعی وستر وحجاب کا ماحول فراہم کروں گا ۔
  • یہ کہ میں اگر مذکورہ بالا اقرار پر قائم نہ رہوں  تو لاہور سے  ضیاء  سکنہ 78/A۔ ***** اور مظفر آباد سے من مقر کے برادر کلاں   عمر  اس بات کے ضامن ہوں گے۔

اس لیے اقرار نامہ مابین فریقین تحریر کردیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔

دارالافتاء کے نمبر سے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے درج ذیل بیان دیا:

 میں نے معاہدہ کیا تھا کہ صغری (دوسری بیوی) کو ساری زندگی لاہور میں رکھوں گا لیکن میرے حالات تنگ ہو گئے ہیں اور میں مقروض ہوں مجھ پر کافی قرضے ہیں جس کی وجہ سے میں اپنی بیوی کو لاہور میں نہیں رکھ سکتا اخراجات زیادہ ہیں،لہذا وہ مظفرآباد آکر رہے میں نان نفقہ دینے کے لیے تیار ہوں اور جب تک ادھرتھی تو میں نان نفقہ پورا کرتا تھا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے لیے عدالتی خلع لینا جائز نہیں۔

توجیہ: چونکہ شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت سے خلع لے لینے سے شرعا نکاح ختم نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ نکاح فسخ کروانے کی کوئی معتبر شرعی بنیاد موجود ہو مثلاًشوہر ظلم و زیادتی کرتا ہو یا نان  نفقہ نہ دیتا ہو وغیرہ تو ان صورتوں میں شوہر کی رضا مندی کے بغیر بھی عدالت سے نکاح فسخ کروانا درست ہے ۔مذکورہ صورت میں (سائلہ کے بیان کے مطابق)نکاح فسخ کروانے کی کوئی معتبر بنیاد موجود نہیں ہے لہذا عدالت سے خلع لینا یا نکاح فسخ کروانا  شرعاً جائز نہیں۔

رہی بات شوہر کی طرف سے کیے گئے وعدے کی کہ وہ اپنی بیوی کو لاہور میں رکھے گا اس وعدے کی پاسداری شوہر کے ذمے شرعاً واجب ہے بغیر کسی معقول عذر کے وعدے کی  خلاف روزی کرنا سخت گناہ ہے اور   بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے شوہر کو وعدہ پورا کرنے کا پابند کرائے لیکن اس بنیاد پر یکطرفہ (شوہر کی رضامندی کے بغیر) عدالتی خلع لینا  شرعاً جائز نہیں۔

نوٹ: مذکورہ صورت میں اگرچہ سائلہ کے بیان کے مطابق شوہر نے ایک سال سے زائد عرصے سے بیوی کو نفقہ نہیں دیا  لیکن  چونکہ شوہر پر نفقہ کا وجوب اس صورت میں  ہوتا ہے جب  بیوی اپنے شوہر کے پاس محبوس ہو  یعنی شوہر کے گھر میں ہو یا شوہر کی اجازت و رضامندی سے والدہ  وغیرہ کے گھر رہے جبکہ مذکورہ صورت میں بیوی شوہر کی رضامندی کے بغیر اپنی والدہ کے گھر میں تھی جس کی وجہ سے شوہر پر اس دورانیہ کا نفقہ بھی واجب نہیں۔

بدائع الصنائع (3/145) میں ہے:

‌وأما ‌ركنه ‌فهو ‌الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول

بخاری شریف (رقم الحدث:2682) میں ہے:

عن ‌أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌آية ‌المنافق ‌ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا اؤتمن خان وإذا وعد أخلف

المحیط البرہانی (4/170) میں ہے:

والمعنى في ذلك أن النفقة ‌إنما ‌تجب ‌عوضاً ‌عن ‌الاحتباس في بيت الزوج، فإذا كان الفوات لمعنى من جهة الزوج أمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديراً، أما إذا كان الفوات بمعنى من جهة الزوجة لا يمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديراً وبدونه لا يمكن إيجاب النفقة

العرف الشذی (2/382) میں ہے:

‌الشروط ‌التي ‌لا ‌تنافي النكاح جائزة ويوفى ديانة، ولا تلزم قضاء عند أبي حنيفة رحمه الله

بذل المجہود (8/71) میں ہے:

(باب: في الرجل يشترط لها دارها)

أي ‌إذا ‌نكحت ‌المرأة ‌رجلا، وشرطت أن لا يخرجها من دارها، فقبل الزوج شرطها، فهل يلزم عليها أن لا يخرجها أم لا؟ ……….. وقال الخطابي: ‌الشروط ‌في ‌النكاح ‌مختلفة، فمنها ما يجب الوفاء به اتفاقًا، وهو ما أمر الله به من إمساك بمعروف، أو تسريح بإحسان، وعليه حمل بعضهم هذا الحديث، ومنها ما لا يوفى به اتفاقًا كسؤال طلاق أختها، ومنها ما اختلف فيه كاشتراط أن لا يتزوج عليها، أو لا يتسرى، أو لا ينقلها من منزلها إلى منزله

الکوکب الدری (2/236) میں ہے:

‌‌[باب في الشرط عند عقدة النكاح]

قوله [‌إن ‌أحق ‌الشروط أن يوفى بها] ظاهر أن الشروط يوفى بها ما لم يقع منافية لعقد الزوجية، فأما إذا شرط ما ينافيه، كما إذا شرط لها أن لا يخرجها من بيتها فهذا ينافي عقدة الزواج، كما قال الله تعالى: {الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ} فلا يجب عليه وفاؤه فإنه قلب الموضوع، والحاصل ان الشروط ثلاثة أصناف ما يوجبه الزواج من غير اشتراط كالنفقة لها والسكنى فهذا يجب الإيفاء به وإن لم يشترط وما ينافي كتاب الله ونص رسوله فهذه لا يجوز العمل بها وإن اشترط وما ليس من القسمين فهي مباحة إتيانها وتركها فهذه يجب الإيفاء بها إذا اشترط وإن لم يشترط لا

وفى حاشية الكوكب الدري: وقال جماعة إن المراد بالشرط ههنا المهر خاصة لا غير لأنه هو المشروط في مقابلة البضع قلت وما حكى الترمذي من اتفاق الشافعي وأحمد في تلك المسألة تعقب عليه الحافظ في الفتح إذ قال النقل في هذا عن الشافعي غريب بل الحديث عندهم محمول على الشروط التي لا تنافي مقتضى النكاح بل تكون من مقتضياته ومقاصده كاشتراط العشرة بالمعروف والإنفاق والكسوة والسكنى وأن لا يقصر في شيء من حقها من قسمة ونحوها، وأما شرط ينافي مقتضى النكاح كان لا يقسم لها أو لا يتسرى عليها أو نحو ذلك لا يجب الوفاء به بل إن وقع في صلب العقد صح النكاح بمهر المثل وفي وجه يجب المسمى ‌ولا ‌أثر ‌للشرط

فتاویٰ عثمانی(2/463)میں ہے:

یکطرفہ خلع شرعاً کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں۔تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیادِ فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو،یعنی شوہر کا “تعنت”ثابت ہورہا ہو،البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو،اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یک طرفہ فیصلہ درست نہ ہوگا،تاہم فسخِ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہوگیا ہے،اور عورت عدّتِ طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved