• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سود کی آمدنی مسجد و مدرسہ میں لگانا

استفتاء

سوال یہ ہے کہ ایک سودخور آدمی  نے سودی آمدنی سے  گھر تعمیر کیا پھر اسے کرائے پر دے دیا اب اس کرائے کی آمدنی کو مسجد اور مدرسہ میں صرف کرنا چاہتا ہے   کیا اس کی گنجائش ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ گھر کی آمدنی (کرائے) کو مسجد یا مدرسہ یا کسی بھی دینی کام میں لگانا درست نہیں۔

توجیہ: حرام مال سے جو چیز خریدی جائے وہ بھی حرام ہی ہوتی ہے البتہ بعض اہل علم نے بعض مجبوریوں کی وجہ سے خریدار کے حق میں اس کی بعض صورتوں کی گنجائش دی ہے لیکن چونکہ مسجد یا مدرسہ یا کسی دینی کام میں اس خریدی ہوئی چیز کو یا اس کی آمدنی کو استعمال کرنے کی مجبوری نہیں ہے لہٰذا یہ آمدنی مسجد یا مدرسہ یا کسی دینی کام میں لگانا جائز نہیں۔

ہندیہ (3/215) میں ہے :

اكتسب مالا من حرام ثم اشترى شيئا منه بأن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بتلك الدراهم فإنه لا يطيب له ويتصدق به وإن اشترى قبل الدفع بتلك الدراهم ودفعها فكذلك في قول الكرخي وأبي بكر خلافا لأبي نصر و إن اشترى قبل الدفع بتلك الدراهم ودفع غيرها أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشترى بدراهم أخرى ودفع تلك الدراهم قال أبو نصر يطيب ولا يجب عليه أن يتصدق وهو قول الكرخى والمختار قول أبي بكر إلا أن اليوم الفتوى على قول الكرخى كذا في الفتاوى الكبرى

ہدایہ (4/298) میں ہے:

قال: ‌ومن ‌غصب ‌ألفا فاشترى بها جارية فباعها بألفين ثم اشترى بالألفين جارية فباعها بثلاثة آلاف درهم فإنه يتصدق بجميع الربح

شامی(1/658) میں ہے:

(قوله لو ‌بماله ‌الحلال) قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved