- فتوی نمبر: 34-216
- تاریخ: 17 دسمبر 2025
- عنوانات: عبادات > قسم اور منت کا بیان > نذر و منت کے احکام
استفتاء
1۔ میرا چھوٹا بھائی اچانک سخت بیمار ہو گیا بظاہر زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا اسی دوران میری والد ہ نے گھر میں موجود بھینسوں میں سے ایک بھینس پر صدقہ کی نیت سے پانی ڈالا کہ اگر بیٹا ٹھیک ہو جاتا ہے تو اسے صدقہ کریں گے یعنی ذبح کرکے خون بہائیں گے۔اسی دوران میری بڑی بہن کو خبر ہوئی کہ بھائی کی حالت نازک ہے تو اس نے بھی اپنے گھر میں موجود ایک جانور صدقہ کیلئے مختص کر دیا اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ عمل پہلے ہو چکا ہے ۔میرا چھوٹا بھائی ٹھیک ہوگیا ہے۔ اب کیا حکم ہے؟
2۔کیا ان دونوں جانوروں میں سے کسی ایک کو ذبح کریں یا دونوں کا ذبح کرنا لازمی ہے نیز یہ کہ ان کو فروخت کر کے پیسے کسی مسجد مدرسے میں لگائے جا سکتے ہیں؟
3۔کیا ان کی جگہ کوئی اور جانور خرید کر ذبح کیا جا سکتا ہے ؟
وضاحت مطلوب ہے: کیا زبان سے کچھ بولا تھا یا پھر دل ہی میں نیت کی تھی؟
جواب وضاحت: بہن نے جانور کے لیے یہ الفاظ بھی ادا کیے تھے کہ” انشاءاللہ بھائی ٹھیک ہو گیا تو یہ جانور صدقہ کروں گی” اور والدہ صاحبہ نے بھائی کے سر سے پانی پھیر کر اس جانور پر صدقے کی نیت سے ڈالا ہے۔زبان سے الفاظ نہیں بولے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ دونوں صورتوں میں نذر منعقد نہیں ہوئی۔ پہلی صورت میں نذر اس لیے منعقد نہیں ہوئی کہ آپ کی والدہ صاحبہ نے زبان سے کچھ بھی نہیں کہا ہے جبکہ نذر کے لیے زبان سے الفاظ کی ادائیگی ضروری ہے اور دوسری صورت میں نذر اس لیے منعقد نہیں ہوئی کہ آپ کی بہن نے نذر کے الفاظ کے ساتھ متصلا انشاءاللہ کہہ دیا ہے اور نذر کے الفاظ کے ساتھ متصلا انشاءاللہ کہنے سے نذر منعقد نہیں ہوتی۔
دررالحکام شرح غررالأحکام(1/212)میں ہے:
والنذر لا يكون الّا باللّسان،ولو نذر بقلبه لا يلزمه بخلاف النيه؛لان النذر عمل اللسان.
المبسوط للسرخسی (8/143) میں ہے:
وإذا حلف على يمين أو نذر، وقال: إن شاء الله موصولا فليس عليه شيء عندنا.
الاصل للشیبانی (2/280) میں ہے:
ولو أن رجلا قال: إن كلمت فلانا فعلي يمين أو علي نذر، أو حلف بشيء مما ذكرت لك من الأيمان وقال في ذلك: إن شاء الله، فوصلها باليمين ثم كلمه لم يكن عليه كفارة ولا حنث.
قال محمد: أخبرنا بذلك أبو حنيفة عن القاسم عن أبيه عن عبد الله بن مسعود. وذكر عبد الله عن نافع عن ابن عمر، وأبو حنيفة عن حماد عن إبراهيم وغيرهم أنهم قالوا: من حلف على يمين وقال: إن شاء الله، فقد استثنى ولا حنث عليه ولا كفارة وبلغنا عن عبد الله بن عباس أنه قال: من حلف على يمين فاستثنى ففعل الذي حلف عليه فلا حنث عليه ولا كفارة.
فتح القدیر (5/94) میں ہے:
(قوله ومن حلف على يمين) أي على محلوف عليه (فقال إن شاء الله متصلا بيمينه فلا حنث عليه) وكذا إذا نذر وقال إن شاء الله متصلا لا يلزمه شيء .
فتاوی دارالعلوم دیوبند (12/64)میں ہے:
سوال: میرے والد نے مجھ سے مرغ کھانے کا عہد کرایا میں نے ان الفاظ سے عہد کیا کہ انشاءاللہ میں مرغ نہیں کھاؤں گا، مجھے مرغ کھانا جائز ہے یا نہ؟
الجواب: جائز ہے کیونکہ انشاءاللہ کہنے سے قسم نہیں رہتی، یہ بہت اچھا کیا کہ انشاءاللہ کہہ لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved