- فتوی نمبر: 31-237
- تاریخ: 22 دسمبر 2025
- عنوانات: عبادات > قسم اور منت کا بیان > نذر و منت کے احکام
استفتاء
اگر کسی شخص نے نذر میں ایک بکری مانی کہ اگر میری بیٹی ٹھیک ہو گئی تو یہ بکری صدقہ کروں گااور اس بکری نے بچہ دے دیا تو وہ بچہ نذر میں شامل ہو گا یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں منذورہ بکری کا بچہ نذر میں شامل نہیں ہو گا۔
توجیہ: نذر میں چیز متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتی اس لیے مذکورہ صورت میں جس بکری کو صدقہ کرنے کی نذر مانی ہے اسی بکری کو صدقہ کرنا ضروری نہیں بلکہ اس بکری کی قیمت یا اس کے مساوی کسی دوسری بکری کو صدقہ کرنا بھی جائز ہے۔ چونکہ جس بکری کو صدقہ کرنے کی نذر مانی ہے وہ بکری متعین نہیں ہوئی اس لیے اس بکری کا بچہ بھی نذر میں شامل نہیں ہو گا۔
شامی (5/ 537)میں ہے:
(ومن نذر نذرا مطلقا أو معلقا بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعا للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر) لحديث «من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى» (كصوم وصلاة وصدقة) ووقف (واعتكاف)
شامی(5/ 546)میں ہے:
نذر أن يتصدق بهذا الدينار فتصدق بقدره دراهم أو بهذا الخبز فتصدق بقيمته جاز عندنا
شامی (3/740) میں ہے:
«(ولو قال لله علي أن أذبح جزورا وأتصدق بلحمه فذبح مكانه سبع شياه جاز) كذا في مجموع النوازل ووجهه لا يخفى.وفي القنية إن ذهبت هذه العلة فعلى كذا فذهبت ثم عادت لا يلزمه شيء.
(نذر لفقراء مكة جاز الصرف لفقراء غيرها) لما تقرر في كتاب الصوم أن النذر غير المعلق لا يختص بشيء
مطلب النذر غير المعلق لا يختص بزمان ومكان ودرهم وفقير
(قوله لما تقرر في كتاب الصوم) أي في آخره قبيل باب الاعتكاف وعبارته هناك مع المتن: والنذر من اعتكاف أو حج أو صلاة أو صيام أو غيرها غير المعلق ولو معينا لا يختص بزمان ومكان ودرهم وفقير فلو نذر التصدق يوم الجمعة بمكة بهذا الدرهم على فلان فخالف جاز وكذا لو عجل قبله فلو عين شهرا للاعتكاف أو للصوم فعجل قبله عنه صح، وكذا لو نذر أن يحج سنة كذا فحج سنة قبلها صح أو صلاة في يوم كذا فصلاها قبله لأنه تعجيل بعد وجود السبب، وهو النذر فيلغو التعيين بخلاف النذر المعلق، فإنه لا يجوز تعجيله قبل وجود الشرط اهـ.
قلت: وقدمنا هناك الفرق وهو أن المعلق على شرط لا ينعقد سببا للحال كما تقرر في الأصول بل عند وجود شرطه، فلو جاز تعجيله لزم وقوعه قبل سببه فلا يصح، ويظهر من هذا أن المعلق يتعين فيه الزمان بالنظر إلى التعجيل، أما تأخيره فالظاهر أنه جائز إذ لا محذور فيه، وكذا يظهر منه أنه لا يتعين فيه المكان والدرهم والفقير لأن التعليق إنما أثر في انعقاد السببية فقط، فلذا امتنع فيه التعجيل، وتعين فيه الوقت أما المكان والدرهم والفقير فهي باقية على الأصل من عدم التعيين، ولذا اقتصر الشارح في بيان المخالفة على التعجيل فقط حيث قال: فإنه لا يجوز تعجيله فتدبر
احسن الفتاویٰ(5/482)میں ہے:
اضحیہ کے سوا نذرِ ذبح سے تصدقِ لحم مقصود ہے ورنہ نفس ذبح صحیح نہیں، اس لیے کہ اضحیہ کے سوا ذبح حیوان عبادت مقصود نہیں، جب ذبح مقصود نہیں تصدقِ لحم مقصود ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ ذبح حیوان واجب نہیں، بلکہ اختیار ہے چاہے یہ بکرا ذبح کر کے گوشت صدقہ کرے یا بکرا زندہ صدقہ کر دے یا اس کی قیمت صدقہ کرے یا قیمت کے برابر کوئی دوسری چیز، قال في شرح التنوير نذر ان يتصدق بعشرة دراهم من الخبز فتصدق بغيره جاز ان ساوي العشرة كتصدقه بثمنه بنص فقہاء رحمہم اللہ نذر میں زمان، مکان اور درہم و فقیر وغیرہ کی تعیین سے نذر ان قیود سے مختص نہیں ہوتی، اس پر اشکال ہوتا ہے کہ فقیر نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو بحکم نذر ہونے کی وجہ سے بعینہ اسی جانور کی قربانی اس پر واجب ہے، تبدیل کرنا جائز نہیں، اس صورت میں اختصاصِ نذر کیا ہوا؟ وجہ الفرق یہ معلوم ہوتی ہے کہ نذر تضحیہ میں فعلِ منذور یعنی ذبح کا اثر حسی حیوان میں پایا جاتا ہے اور نذر تصدق میں مسمیٰ میں فعل منذور یعنی تصدق کا کوئی اثر حسی نہیں پایا جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved