• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پراپرٹی ڈیلر کا بائع اور مشتری دونوں سے کمیشن لینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے ڈاکٹر اسرار صاحب کا  ایک بیان سنا کہ پراپرٹی ڈیلرز جو بائع اور مشتری دونوں طرف سے کمیشن لیتے ہیں یہ حرام ہے،ان کے مطابق صرف ایک فریق سےکمیشن لی جاسکتی ہے ، دونوں سے نہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

ڈاکٹر اسرار صاحب کا بیان ذیل میں ہے:

(لا يبيع حاضر لباد)

(کسی شہر کا رہنے والا باہر سے آنے والے کا مال فروخت نہیں کرے گا  )  [ہمارے ہاں عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ]عن فلاں عن فلاں فلاں ، دوسری روایت آگئی فلاں سے فلاں سے فلاں سے چین آف روایت جو ہے ۔آٹھ دس حدیث کا درس ہوگیا دعا مانگ لی فارغ ہوگئے[ہمارے ہاں درس حدیث یہ ہے] میں (ڈاکٹر اسرار)نے کہا مولانا! اس رو سے آڑھت کا کیا جواز ہے؟ پوچھا آڑھت کسے کہتے ہیں ؟میں نے کہا کہ جی منڈیاں ہوتی ہیں اناج کی منڈیاں ،پھلوں کی منڈیاں ہیں، سبزیوں کی منڈیاں ہیں  وہاں باہر سے لوگ مال لے کے آتے ہیں ،جو وہاں دکاندار ہےآڑھتی وہ خریدتا نہیں ہے،اس کے پاس خریدار بھی آگیااور اس کے پاس بیچنے والا بھی آگیا،وہ خریدار خریدتا ہے اور بیچنے والا بیچتا ہےاور یہ آڑھتی دونوں سے کمیشن لیتا ہے۔(مولانا)کہنے لگے یہ تو حرام مطلق ہے ۔ایک طرف سے کمیشن آپ لے سکتے ہیں دوطرف سے نہیں ، اور(مولانا کی) یہ بڑی معقول بات ہے  اور یہی معاملہ ہمارا جو بزنس ہو رہا ہے پراپرٹی بزنس اس میں بھی وہی ہے،دونوں طرف سے،خریدار سے بھی اورفروخت کنندہ سے بھی [کمیشن لی جاتی ہے یہ]حرام ہے۔ آپ ایک مقدمہ میں ایک سائیڈ  کے وکیل ہوسکتے ہیں دونوں سائیڈ کے وکیل نہیں ہوسکتے،یا تو آپ خریدار کے انٹرسٹ کو زیادہ سے زیادہ بچانے کی کوشش کریں گے، زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوگا  تو خریدار سے کمیشن لی جائےیا فروخت کنندہ کوچاہیں گے کہ زیادہ سے زیادہ نفع ہوجائےتو فروخت کنندہ سے کمیشن لے لی جائے، یہ وکالت ہوجائے گی،ون وے کمیشن از جائزٹو وے کمیشن از حرام۔ اور منطقی طور پر آپ سوچ لیجئے کہ ایک مقدمہ میں ایک ہی وکیل دونوں طرف سےنہیں ہوسکتا ،مدعی کی طرف سے بھی ہو اور مدعی علیہ کی طرف سے بھی ایسا نہیں ہوتا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر کوئی شخص کسی کا وکیل (ایجنٹ) بن کر مال فروخت کرے یا خریدے تو اس صورت میں وہ صرف اس سے کمیشن لے سکتا ہے جس کاوہ  وکیل ہے دوسرے سے نہیں لےسکتا۔

اور اگر کوئی شخص کسی کا وکیل بن کر خرید وفروخت نہ کرے بلکہ بائع(بیچنے والے) اور مشتری(خریدنے والے)کو آپس میں ملوائے (جسے انگریزی میں بروکر کہتے ہیں) اور خرید وفروخت کا معاملہ خود بائع اور مشتری کریں تو اس صورت میں دونوں طرف سے کمیشن لیا جاسکتا ہے کیونکہ اس صورت میں یہ شخص کسی پارٹی کا وکیل نہیں۔

نوٹ:آڑھتی عام طور سے زمیندار کا وکیل بن کر پھل وغیرہ فروخت کرتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ فروخت تو زمیندار خود کرتا ہو اور آڑھتی صرف دلالی (بروکری)کرتا ہو لہذا ڈاکٹر اسرار صاحب کا یہ کہناتو درست ہے کہ آڑھتی دونوں طرف سے کمیشن نہیں لے سکتا کیونکہ آدمی ایک سائڈ سے وکیل ہوسکتا ہے نہ کہ دونوں سائڈوں سے ، لیکن یہ کہنا کہ ’’اس آڑھتی کے پاس خریدار بھی آگیا اور بیچنے والا بھی آگیا  خريدار خریدتا ہے اور بیچنے والا بیچتا ہے‘‘ گویا آڑھتی صرف دلالی(بروکری) کرتا ہے، حقیقت پر مبنی نہیں۔

اسی طرح ڈاکٹراسرار صاحب کاپراپرٹی بزنس میں بہر صورت دو طرفہ کمیشن کو ناجائز کہنا بھی درست نہیں  کیونکہ جس صورت میں پراپرٹی ڈیلر کسی ایک پارٹی کا وکیل بن کر سودا کرتا ہے اس صورت میں تو وہ واقعی دونوں طرف سے کمیشن نہیں لے سکتا، لیکن جس صورت میں وہ  صرف دلال(بروکر)بنتا ہے اس صورت میں وہ کسی فریق کا وکیل نہیں بنتا۔ اس لئے اس صورت میں وہ دونوں سے کمیشن لے سکتا ہے۔

درمختار مع الشامی (۹۳/۷)میں ہے:

وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف

قال ابن عابدین تحته

 قوله ( فأجرته على البائع ) وليس له أخذ شيء من المشتري لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا لأنه لا وجه له

قوله ( يعتبر العرف ) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved