• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بیوی بچوں کے ساتھ والدین سے الگ رہنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میری شادی کو سات سال ہو گئے ہیں ،دو بچے ہیں ایک بیٹا ایک بیٹی اور میرے خاوند jobکرتے ہیں اور اچھا گزر بسر ہو جاتا ہے اور میرے سسر ریٹائر ہیں ۔تین سال سے ان کی پینشن بھی بہتر ہے ۔سول ایوایشن میں تھے ۔

اور میری ایک نند شادی شدہ اور ایک دیور کنوارہ ہے گھر میں ساس ،سسر اور دیور اور میرے خاوند اور دو بچے اور میں رہتی ہوں اور میرے ساس اور سسر ڈپریشن کے مریض ہیں اور دوسروں کو بھی خاص طور پر بہو یعنی مجھے اور میرے شوہر کو گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور ہروقت ذہنی ٹارچر کسی نہ کسی چیز پر جاری رہتا ہے اور ساس وسسر جھوٹ بولنے سے بھی قطعی گریز نہیں کرتے ۔اور بچوں کی تربیت میں بھی اس وجہ سے خلل آ رہا ہے کہ بچوں کو T.Vدکھاتے ہیں جبکہ میں اور میرے خاوند بچوں کی دینی تربیت کے لیے بے حد کوشاں اور پریشان ہیں بچے دادی دادا سے گالیاں اور جھوٹ سیکھتے ہیں اور ٹی وی کے آگے ان کوبٹھا دیا جاتا ہے اور ان کے ابو کے آنے سے پہلے جلدی سے ٹی وی بند کردیتے ہیں کہ بس کرو آپ کے بابا آگئے ۔جبکہ پہلے خود بٹھاتے ہیں اور میرے خاوند اپنے والدین کا بے حداحترام کرتے ہیں والد کی گالیوں بے جا گالیوں کے باوجود بھی خاموشی سے اوپر چلے جاتے ہیں جواب نہیں دیتے اور میرے خاوند کا میرے ساتھ بھی بہت اچھا سلوک ہے ہر طرح کا سکون اور ساتھ ہے مگر سا س سسر روز کی لڑائی کسی نہ کسی معاملے میں کرتے ہیں کہ بل اتنا آگیا سودا اتنا ہو گیا ہے چھوٹی سے چھوٹی بات پر باتیں سننا عام بات ہے ۔ساس الگ سے سناتی رہتی ہیں اور سسر بھی اور گو یا کہ ہم دونوں صرف سننے کے لیے ہیں ۔میں اور میرا خاونداور ہم بدزبانی سے قطعی پرہیز کرتے ہیں اور ہر خدمت کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں مگر اس سب کا کو ئی صلہ نہیں ہے ہر ایک کے سامنے بھی بدتعریفی کرتے ہیں اور لڑائی کے دوران یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ دفعہ ہو جائو الگ ہو جائو کتنی بار ایسا کہا تو پھر ناراضگی ختم کرلیتے اور نرم پڑجاتے ہیں مگر پھر اگلے دن سے وہی ٹارچر یہ مسلسل کا مشغلہ ہے ۔جس کی وجہ سے میرے اعصاب Tensرہتے ہیں ۔میں اعصابی مریض بن گئی ہوں برداشت کرکرکے بیماریاں ایک سے بڑھ کر ایک سحر کی تکلیف میں رہتی ہوں ۔میرے شوہر بھی ہر وقت پریشان رہتے ہیں میرا کمرہ اوپر ہے اورکچن نیچے اور کچن کی سہولت بھی نہیں ہے اس کے علاوہ بچوں کو بھی ماں باپ کے خلاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

میرا سسر الی خاندان مکمل دنیادار ہے مگر میرے خاوند کو اللہ تعالی نے اپنے دین کی سمجھ عطا فرمائی ہے ۔وہ ہر معاملے میں دینی بات کرترجیح دیتے ہیں اللہ کی قسمیں اور نعوذباللہ یہاں تک بھی کہہ دیتے ہیں’’ اللہ نے کی کرلینا ہے ‘‘کفریہ جملے بولنے سے بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے بچے بیمار ہیں ڈاکٹر نے جن چیزوں سے منع کیا وہ میں تو خاص خیال رکھتی ہوں مگر وہ ساس وسسر منگوا کر دے دیتے ہیں تو بچہ ماں سے متنفر ہو رہا ہے ۔ٹی وی کے معاملے میں بھی اسی طرح ۔اب سات سال ایک ایک دن مسلسل برداشت کے بعد میرے خاوند اور میں الگ ہونا چاہتے ہیںمگر پھر بھی الگ نہیں ہو پاتے کہ میرے خاوند کے والدین کے حقوق نہ کہیں پامال ہو جائیں۔ حالانکہ یہ اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ مکمل سسر کو دیتے ہیں۔30ہزار سسر کو اور چھ ہزار ماں کو ہر ماہ جبکہ چالیس ہزار پنشن سسر کی بھی آتی ہے ۔

تو اس صورت میں الگ ہونے کا کیا حکم ہے؟ ایک پلاٹ پانچ مرلے کا سسرکے نام ہے۔جبکہ گزر بسر اچھا ہے بلکہ عیش میں ہیں ۔اب اگر الگ ہوتے ہیں تو میرے شوہر پر والدین کے کیا حقوق لازم آتے ہیں ۔جبکہ چھوٹا بھائی یعنی میرا دیور انجینئر ہے وہ بھی کماتا ہے کنوارہ ہے کبھی کوئی jobکبھی کوئی jobخود مستقل مزاج نہیں ہے۔

uberپر گاڑی چلالیتا ہے اس کا رشتہ ہو چکا ہے مگر شادی ابھی نہیں ۔اب اس تمام صورت حال میں کیا فتوی ہے جبکہ میرے خا وند صبح سات سے شام آٹھ بجے گھر آتے ہیں اور گھر آنے کے بعد پھر وہی طعنے اور باتیں کبھی بھی کوئی بھی ٹوپک پر ڈانٹ شروع ہوجاتی ہے سسر کی بلاکسی وجہ سے اور میرے شوہر کو ذہنی سکون نہیں ۔ان سارے حالات میں ہم الگ ہو سکتے ہیں؟ اگر ہم الگ ہو جائیں تو ہمارے ذمے کیا خدمت ہے ؟اگر ہم علیحدہ ہو جائیں تو کیا ہمیں کھانا بنانے والی کو پیسے بھی دینے پڑیں گے؟

وضاحت مطلوب ہے :

کہ آپ کے علیحدہ ہونے کے بعد ساس سسر کے کھانے پینے ،کپڑے دھونے ،گھر کی صفائی وغیرہ کا کیا نظم ہو گا؟

جواب وضاحت :

ویسے تو گھر کے کام کرنے کے لیے باہر سے عورتیں آتی ہیں بس میں گھر کا کھانا بناتی ہوں ۔اگر میں نہ بناوں تو میری ساس کو خود کھانا بنانا پڑے گا۔

مزید وضاحت :

کیا ساس اس پوزیشن میں ہیں کہ خود بآسانی کھانا بنا سکیں اور چھوٹے بیٹے کی شادی ہونے تک بناتی رہیں؟

جواب وضاحت :

ساس کی عمر اگرچہ زیادہ ہے تاہم کھانا خود بناسکتی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ والدین کو خدمت کی فوری ایسی ضرورت نہیں جس کے لیے آپ کا ان کے ساتھ رہنا ضروری ہو ۔اس لیے آپ لوگ الگ ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں ۔الگ ہونے اور رہنے کے باوجود بھی خدمت اور مالی تعاون کیا جاسکتا ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved