- فتوی نمبر: 23-255
- تاریخ: 02 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
(1)۔خط کے سلام کا جواب دینا واجب ہے یا نہیں ؟اگر واجب ہے تو فورادینا وجب ہے یا خط لکھنے کے وقت ؟اوراگر جواب نہ دو تو گناہ ہوگا یا نہیں ؟ (2) ۔غیر مسلم جیسے عیسائی وغیرہ کو سلام کا کیا حکم ہے ؟(3)۔ گالیاں دینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)۔خط میں آنے والے سلام کا جواب دینا بھی ضروری ہے اور بہتر یہ ہے کہ فوراً زبان سے جواب دے دیا جائےکیونکہ ممکن ہے کے خط کے جواب کا موقع نہ ملے تو واجب فوت ہونے کا گناہ ہوگا اور اگر خط دینے کا ارادہ نہ ہویا خط قابل جواب نہ ہو تو فورا ً زبان سے جواب دینا واجب ہے
(2)۔غیر مسلم کو سلام نہیں کرنا چاہیئے ۔اگر ضرورت ہوتو "السلام علی من اتبع الهدي” کہہ دیا جائے اور غیر مسلم کے سلام کے جواب میں صرف "وعلیکم ” کہہ دینا چاہیئے۔
(3)۔گالیاں دینے سے وضو نہیں ٹوٹتا لیکن اس کے بعد وضو کرنا مستحب ہے ۔
فتاوی شامی (9/685) میں ہے:"قوله ( ويجب رد جواب كتاب التحية ) لأن الكتاب من الغائب بمنزلة الخطاب من الحاضر ، والناس عنه غافلون أقول المتبادر من هذا أن المراد رد سلام الكتاب لا رد الكتاب لكن في الجامع الصغير للسيوطي رد جواب الكتاب حق كرد السلام قال شارحه المناوي أي إذا كتب لك رجل بالسلام في كتاب ووصل إليك وجب عليك الرد باللفظ أو بالمراسلة… وهو مذهب ابن عباس ،
احسن الفتاوی (8/137) میں ہے:سوال : خط کے سلام کا جواب واجب ہے یا نہیں ؟اگر واجب ہے تو کیا فی الفور واجب ہے یا عند جواب الکتاب ؟اگر خط کا جواب دینے کا ارادہ نہ ہویا خط قابل جواب نہ ہوتو کیا حکم ہے؟
الجواب :زبانی یابذریعہ خط جواب دینا واجب ہے بہتر یہ ہے کہ فوراً زبان سے جواب دے دیا جائے کیونکہ ممکن ہے کہ خط کے جواب کا موقع نہ ملے تو واجب فوت ہونے کا گناہ ہوگا ،خط کا جواب دینے کا ارادہ نہ ہویا خط قابل جواب نہ ہوتو فوراً زبان سے جواب دینا واجب ہے۔
بخاری شریف ( باب: كيف يرد على أهل الذمة السلام) میں ہے:"عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ” إذا سلم عليكم أهل الكتاب فقولوا: وعليكم”فتاوی شامی (9/679)میں ہے:"قوله ( ويسلم المسلم على أهل الذمة إلخ ) انظر هل يجوز أن يأتي بلفظ الجمع لو كان الذميواحدا والظاهر أنه يأتي بلفظ المفرد أخذا مما يأتي في الرد تامل :لكن في الشرعة إذا سلم على أهل الذمة فليقل السلام على من اتبع الهدى وكذلك يكتب في الكتاب إليهم ،وفي التاترخانية قال محمد إذا كتبت إلى يهودي أو نصراني في حاجة فاكتب السلام على من اتبع الهدى اه "فتاوی شامی (1/206) میں ہے:"وصفتهافرض للصلوة ….ومندوب في نيف وثلاثين موضعا ذكرتها في الخزائن منها بعد كذب وغيبة وقهقهة وشعر وأكل جزور وبعد كل خطيئة”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved