- فتوی نمبر: 12-242
- تاریخ: 31 جولائی 2018
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
کیا رائے ہے علماء کرام کی اس بارے میں کہ میں نے چار کنال دس مرلے جگہ خریدی جو دو کھیوٹ پر مشتمل تھی (یعنی دو کھاتوں پر مشتمل ہے) ایک کھاتہ روڈ پر تھا اور دوسرا زرعی زمین جس کا عکس مندرجہ ذیل ہے:
میں نے اس کے پیسے دیے جو سڑک سے دور ہے اور اس پر میں قابض ہوں ۔ یہ زمین میں نے 13 سال پہلے خریدی تھی۔ اب پریشانی یہ ہے کہ جو افراد شریک کھاتہ تھے انہوں نے اپنی زمین آپس میں تقسیم کی تو انہیں پتہ چلا کہ سڑک والی زمین میں ایک کنال 16 مرلے کا مالک میں ہوں ۔ اور زرعی زمین والے کھاتے میں ایک کنال 16 مرلے کا مالک شریک کھاتہ ہیں نہ کہ زمین فروخت کرنے والا۔ شریک کھاتہ میرے پاس آئے انہوں نے کہا کہ پٹواری کی غلطی سے سڑک والی زمین آپ کے نام ہو گئی ہے۔ جبکہ پٹواری سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ حقیقت میں رجسٹری میں میں اس کا مالک ہوں ، آپ حضرات سے پوچھنا یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے بھی کیا میں اس کا مالک ہوں ؟
نوٹ : فریق نمبر 1 اپنی ساری زمین فروخت کر چکا ہے، جو دو کھاتوں پر مشتمل تھی۔ جب اس نے مجھے رجسٹری کروائی اسے یہ معلوم نہ تھا کہ میری سڑک والی زمین میں اور زمین موجود ہے۔ اس نے مجھ سے پیچھے والی زمین کے حساب سے پیسے لیے۔ فریق نمبر 2 خریدار کو بھی معلوم نہ تھا کہ رجسٹری میں زمین دو کھاتوں میں ہے، فریق نمبر 3 شریک کھاتہ ان کو بھی معلوم نہ تھا کہ فریق نمبر 1 کی زمین سڑک پر بقایا موجود ہے۔ آپس کی تقسیم پر انہیں پتا چلا کہ فریق نمبر 1 کی ایک کھاتے کی ایک کنال سولہ مرلے سڑک والی زمین میں موجود ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ شریک کھاتہ اس بات پر بضد ہے کیونکہ آپ نے پیچھے والی جگہ کے پیسے دیے ہیں اس لیے آپ وہی جگہ لیں ۔ میں اس بات پر ہوں کہ میں نے جگہ فریق اول سے لی، میں نے آپ سے نہیں لی، اس لیے میں فریق اول کی جگہ کا مالک ہوں ۔
نوٹ: فریق نمبر 1 تین چار سال قبل وفات پا چکے ہیں ، فریق نمبر 1 کی وفات کے بعد پتہ چلا کہ ان کی زمین دو کھاتوں میں ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں زرعی زمین والے کھاتے میں ایک کنال 16 مرلے کی حد تک فضولی کی بیع ہوئی ہے جس کے نفاذ کی منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط فضولی کا موجود رہنا ہے جو کہ فضولی کی وفات کی وجہ سے مفقود ہے۔ اس لیے حقیقی خرید و فروخت تو صرف اتنی جگہ کی ہوئی جتنی اس زرعی کھاتے میں فریق اول کی موجود تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فریق دوم کی طرف سے فریق اول کو زائد رقم چلی گئی اب فریق اول یا اس کے ورثاء اس زائد رقم کے بدلے میں روڈ والے کھاتے میں سے فریق دوم کو جگہ دینے پر رضا مند ہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں اور اگر وہ اس پر رضا مند نہیں تو اس زائد رقم کے عوض خرید کے وقت جتنا سونا یا چاندی آتی تھی اتنا سونا یا چاندی جس میں فریق دوم کا نقصان کم ہو فریق دوم کو دینے کے پابند ہیں ۔ البتہ فریق سوم کو اس میں کچھ دخل اندازی کا حق نہیں کیونکہ نہ وہ بیچنے والا ہے اور نہ خریدنے والا اور نہ مالک۔
فتاویٰ شامی (317/7) میں ہے:
۱۔ فصل في الفضولي مناسبته ظاهرة وذکره في الکنز بعد الاستحقاق لأنه من صوره۔ في الشامية: (قوله: لأنه من صوره) ووجهه أن المستحق يقول: عند الدعوي هذا ملکي ومن باعک إنما باعک بغير إذني فهو عين بيع الفضولي.ا هـ .
۲۔ ( وقف بيع مال الغير ) لو الغير بالغا عاقلا ۔۔۔۔ وهذا إن باعه علي أنه (لمالکه)۔۔۔
(قوله: علي أنه لمالکه إلخ) أي علي أن البيع لأجل مالکه لا لأجل نفسه ۔۔۔۔ لأنه لو باعه لنفسه لم ينعقد أصلا کما في البدائع .۔۔۔ أقول يشکل علي ما نقله ۔۔۔ عن البدائع ما قالوه من أن المبيع إذا استحق لا ينفسخ العقد في ظاهر الرواية بقضاء القاضي بالاستحقاق وللمستحق إجازته. وجه الإشکال أن البائع باع لنفسه لا للمالک الذي هو المستحق مع أنه توقف علي الإجازة ، ويشکل عليه بيع الغاصب فإنه يتوقف علي الإجازة ، فالظاهر ضعف ما في البدائع ، فلا ينبغي أن يعول عليه لمخالفته لفروع المذهب ا هـ. وذکر نحوه الخير الرملي ثم استظهر أن ما في البدائع رواية خارجة عن ظاهر الرواية .
أقول: يظهر لي أن ما في البدائع لا إشکال فيه بل هو صحيح ؛ لأن قول البدائع لو باعه لنفسه لم ينعقد أصلا معناه لو باعه من نفسه فاللام بمعني ’’من‘‘۔ (312/7)
۳۔ (وحکمه) اي بيع الفضولي لو له مجيز حال وقوعه کما مر قبول الاجازة من المالک (اذا کان البائع و المشتري و المبيع قائما) ۔۔۔ لان اجازته کالبيع حکما۔ قوله: (لان اجازته کالبيع حکماً) اي: ولا بد في البيع من قيام هذه الثلاثة۔ (328/7)۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved