• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کے لیے شوہر کے کاروبار میں سے پیسے لینا

استفتاء

محترم مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ کے بارے میں میں ایک گھر یلو خاتون ہوں مجھے اپنے گھر میں شوہر کی طرف سے مختلف مسائل کا سامنا ہے جن کے بارے میں شرعی طور پر کیا حکم ہے ؟وہ میں جاننا چاہتی ہوں میرے پانچ بچے ہیں جن میں تین بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں جو کہ ابھی زیر تعلیم ہیں ۔بڑا بیٹا اٹھا رہ سال کا ہے باقی ابھی پڑھ رہے ہیں ۔میرے شوہر کی طرف سے مجھ پر بہت پابندیاں ہیں وہ مجھے اپنے گھر والوں سے بھی نہیں ملنے دیتا نہ مجھے اپنے رشتہ داروں میں جانے دیتا ہے۔آئے دن جھگڑاکرتا ہے ۔طلاق کی دھمکیاں دیتا ہے اورباہر کے لوگوں سے کہتا ہے میں دوسری شادی کر رہا ہوں اس کے والدین دوسری شادی پر اکساتے ہیں۔کیونکہ جس گھر میں ہم رہ رہے ہیں میرے نام پر ہے جو میں نے خود اپنی محنت سے بنوایا ہے جب بھی لڑائی کرتا ہے تو مجھے گھر سے نکالنے کی دھمکی دیتا ہے کہ اس گھر کو آگ لگا دوں گا۔میرا شناختی کارڈ تک چھین لیتا ہے اورجو میرے پاس زیور ہے اسے بھی چھین لیتا ہے جو کہ میں نے اپنی دونوں بیٹیوں کیلئے رکھا ہوا ہے ۔مجھے اس شخص پر بھروسہ نہیں ہے کیونکہ اس کی عادتوں سے ہمارے سب رشتہ دار واقف ہیں کہ جب میری شادی ہوئی تھی تبھی سے نشہ کرتا تھا اور اب ہمارے حالات کچھ بہتر ہوئے تو تمام غیر اخلاقی اور غیر شرعی کاموں میں ملوث ہوتا ہی چلا گیا ۔جب باہر کے لوگوں نے مختلف قسم کی باتیں کیں تو میرے گھر والوں کو پتہ چلا لیکن یہ گھر آکر نہیں مانتا کہ میں کہاں جاتا ہوں پہلے تو شراب بھی پیتا تھا اب ہم دوسال پہلے حج کر کے آئیں ہیں اب کا معلوم نہیں ہے ۔لیکن لوگ کہتے ہیں ابھی بھی نہیں بدلا ۔ابھی بھی اپنی بیٹیوں کو بھی ماں بہن کی گالیاں دیتا ہے اور مجھے اورمیرے گھر والوں کو بددعائیں دیتا ہے کہ تم لوگوں نے ہی سارے دین کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے ۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا کام کپڑے اور جالی کا ہے جو کہ پہلے چھوٹے پیمانے پر تھا میں خود کٹائی کرتی اور سلائی کرتی تھی جس کی وجہ سے میرے ہاتھوں میں قینچی سے چنڈیاں پڑ گئی اور کمر کا درد اور مہروں کا درد بھی ہونے لگامجھے سانس کی بھی بیماری ہے اور بلڈ پریشر کا بھی مسئلہ ہے ۔تو سارا کام مجھ اکیلی سے نہیں ہوتا تھا تو ہم نے باہر کی عورتوں سے کٹائی کروانا اور سلوانا شروع کردیا ۔یہ سارا کام میں اپنی زیر نگرانی کرواتی ہوں اب یہ کام اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ200/150عورتیں ہمارے گھر سے سلائی کا کام لے کرجاتی ہیں اور اپنے گھروں سے سلائی کرکے دے جاتی ہیں ان کا لین دین اور حساب کتاب میں خود کرتی ہوں جس کی وجہ سے میرا سارا وقت اسی کام میں جاتا ہے ۔

میں سیڑھیاں اتر چڑھ کر سارا دن تھک جاتی ہوں سب کا مال چیک کرکے لینا اور دینا ۔میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو بھی ٹائم نہیں دے پاتی ۔تھوڑی دیر کے لئے ملنے جاتی ہوں تو فورا فون کرکے بلوالیتا ہے ۔سارا کام میں سنبھا لتی ہوں اور تیار شدہ مال یہ بیچ کر سارا پیسہ اپنے پاس رکھتا ہے ۔ہماراہول سیل کا کام ہے تو کاریگر عورتیں جو سلائی کرکے لاتی ہیں ان کی مزدوری میں ہی دیتی ہوں ۔جس کے لیے میرا شوہر مجھے پیسے دیتا ہے میرے پاس صرف یہی پیسے آتے ہیں جن میں سے میں کچھ اپنے پاس بچالیتی ہوں ۔یہ پیسے میں اپنی مستقبل کی ضرورتوں کے لیے بچاتی ہوں کیونکہ گھر کے اکثر خرچے مجھے ہی برداشت کر نے پڑتے ہیں ۔جب لڑائی کرتا ہے تو بچوں کی فیسیں بھی نہیں دیتا ۔دودھ والے کے پیسے گھر کے سارے سودے سلف کے خرچے مجھے ہی برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔خود ہمارا دوسرا گھر ہے جو اس نے اپنے نام پر بنوایا ہے وہاں چلا جاتا ہے اور پھر کئی کئی دن نہیں آتا ۔اسے ان پیسوں کاعلم نہیں ہے اگر میں اسے بتا کر بچاؤں تو وہ مجھے جمع نہیں کرنے دے گا ۔وہ میں اس نیت سے جمع کررہی ہو کہ میری بیٹیوں کے لیے بعد میں کام آئیں گے ۔اور میں اپنی طرف سے کچھ کسی مسجد یا مدرسے میں بھی لگا نا چاہتی ہوں تاکہ میرے لیے صدقہ جاریہ بن سکے ۔کیونکہ میرے خیال سے میں اس کا روبار میں برابر کی شریک ہوں اور پوری محنت کرتی ہوں یہ تو مجھے میرے رشتہ داروں پر بالکل خرچ نہیں کرنے دیتا ۔یہاں تک کہ میرے تایا کی بیٹی جو کہ بیوہ ہے اور اس کی5،6بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا ہے جو چھوٹا ہے میں نے اسے صدقہ فطر دیا تو اس پر بھی ناراض ہوا کہ اپنے رشتہ داروں کو دیتی ہو۔

1۔کیا میں یہ رقم جمع کرسکتی ہوں ۔اس کو بغیر بتائے تاکہ بعد میں میری بیٹیوں کے لیے کام آئے اور اگر اس نے دوسری شادی کرلی تو میرے بڑھاپے کا سہارا ہو سکے ۔کیونکہ میرے بیٹے بھی اپنے باپ پر ہی گئے ہیں ۔بڑے دوسے مجھے کوئی امید نہیں ہے اور اس میں سے کچھ رقم کسی مسجد یا مدرسے میں لگانا چاہتی ہوں۔

2۔یہ رقم میں اپنی امی کے گھر جمع کررہی ہوں اور میں نے انہیں اجازت دے رکھی ہے کہ بوقت ضرورت اس میں سے بطور قرض استعمال کرسکتے ہیں ۔مجھے پورا بھروسہ ہے کہ وہ میرا ایک روپیہ بھی نہیں رکھیں گے ۔تو کیا وہ اس میں سے استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ مجھے اس مسئلے کا علم ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر والوں کو نہیں دے سکتی لیکن یہ تو میری بھی محنت برابر کی شامل ہے اور وہ مجھے میرا سارا حساب بقاعدہ تحریر ی حالت میں لوٹادیں گے۔

3۔کیا میں اس بچائی ہوئی رقم میں سے عید تہوار کے موقعوں پر اپنی چھوٹی بہن پر خرچ کرسکتی ہوں شفقت اور صلہ رحمی کی نیت سے ۔وہ مجھ سے لینا نہیں چاہتے کہ اس کی اجازت نہیں ہے۔لیکن میں اتنا تو اپنا حق سمجھتی ہو ں کہ اس کی اجازت کے بغیر عیدی وغیرہ دے سکوں وہ تومیرے والدین سے بالکل نہیں ملتا نہ ہی ہمارے گھر آتا ہے۔حاصل کلام یہ ہے کہ میرے ان تین بنیادی مسائل کا حل قرآن وحدیث سے واضح کر دیا جائے تاکہ میری ذہنی پریشانی  کا خاتمہ ہو سکے اور میرے لئے اس میں کچھ گنجائش نکالی جائے کیونکہ میں سمجھتی ہو ں میرے لئے ایسا کرنا بہت ضروری ہے ۔اپنے شوہر کی عادتوں کومد نظر رکھتے ہوئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

3-2-1عورتوں کو سلائی کا کام دینا اور پھر اس کو وصول کرنا اور ان عورتوں کو ان کے کام کی اجرتیں دینا اور اس کا حساب کتاب رکھنا ان سب کاموں کے عوض میں آپ اجرت مثل کے بقدر رقم رکھ سکتی ہیں اور یہ رقم آپ جہاں چاہیں جیسے چاہیں خرچ کریں۔

اجرت مثل کامطلب یہ ہے کہ ان کاموں کیلئے اگر کسی اور عورت کو اجرت پر رکھنا پڑے تو جتنی اجرت اس کو دینی پڑے اتنی اجرت ،اجرت مثل ہو گی  ۔

اسی طرح گھرکے وہ خرچے جو عام طور پر شوہر برداشت کرتا ہے جیسے بچوں کی فیسیں ،دودھ والے کے پیسے یا بچیوں کی شادی کے خرچ وغیرہ وغیرہ ان کے لیے بھی آپ رقم رکھ سکتی ہیں ۔لیکن یہ رقم صرف ان ہی جگہوں پر خرچ کریں جن کے خرچے عام طور پر شوہربرداشت کرتا ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved