استفتاء
کیا نمازیں جمع کرکے پڑھی جاسکتی ہیں ؟ جیسے کہ ظہر اور عصر ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ ،اور اکٹھی ا گر پڑھی جاسکتی ہیں تو طریقہ بھی بتا دیں ،اور کیا ان کا اطلاق سفر ،بارش، خوف کے علاوہ عام حالات میں بھی ہو سکتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جمع بین الصلاتین کی دو قسمیں ہیں: (۱) جمع حقیقی: یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرنا۔ (۲) جمع صوری: یعنی ایک نماز کو موٴخر کرکے اس کے آخری وقت میں ادا کرنا اور دوسری نماز کو اس کے شروع وقت میں ادا کرنا اس صورت میں حقیقتا تو دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت میں ہیں لیکن صورتاً دونوں کے درمیان جمع پایا جارہا ہے کہ دونوں ایک ساتھ ادا کی جارہی ہیں۔ احناف کے نزدیک قرآن وحدیث کی روشنی میں جمع حقیقی صرف عرفات اور مزدلفہ میں جائز ہے وہ بھی صرف دو نمازوں ظہر وعصر، اور مغرب وعشاء میں اور صرف حاجیوں کے لیے ان کے علاوہ کسی بھی موقع پر جمع بین الصلاتین حقیقی جائز نہیں۔ کیونکہ بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ (جو کہ آپ ﷺ کے خا ص خادم تھے اور سفر وحضر میں آپ ﷺ کے ساتھ رہتے تھے )سے مروی ہے کہ میں نے آپ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ نے کوئی نماز اپنے وقت سے ہٹ کر پڑھی ہو مگر (مزدلفہ میں ) مغرب اور عشاء کو ( عشاء )کے وقت میں جمع کرکے پڑھا (یعنی انفرادی حالت میں بھی ،ورنہ جماعت کی حالت میں تو عرفات میں ظہر اور عصر کو ظہر کے وقت میں پڑھنا ثابت ہے) اور ( مزدلفہ میں ) فجر کو (اس کے عام وقت یعنی اسفار ) سے پہلے (یعنی غلس میں ) پڑھا۔
چنانچہ صحيح البخارى (1/228) میں ہے:۔
قال عبدالله (ابن مسعود)قال: ما رأيت النبى عليه السلام صلى صلاة بغير ميقاتها إلا صلاتين ، جمع بين المغرب والعشاء ، وصلى الفجر قبل ميقاتها.
البتہ ضرورت (سفر، بارش وغیرہ) کے موقع پرجمع صوری کی اجازت ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ظہر کو موٴخر کرتے (یعنی آخری وقت میں ادا کرتے) اور عصرکو مقدم کرتے (یعنی شروع وقت میں ادا کرتے) اور مغرب کو موٴخر کرتے اور عشاء کو مقدم کرتے۔
سنن ابی داؤد(1/179) میں ہے:
عن نافع وعبد الله بن واقد أن مؤذن ابن عمر قال الصلاة. قال سر سر. حتى إذا كان قبل غيوب الشفق نزل فصلى المغرب ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء ثم قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به أمر صنع مثل الذى صنعت فسار فى ذلك اليوم والليلة مسيرة ثلاث.
ترجمہ:ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مؤذن نے کہا نماز کا وقت ہوچکا ہے آپ نے فرمایا چلتے رہو چلتےر ہو یہاں تک کہ شفق کے غائب ہونےسے پہلے سواری سے اترے اور مغرب کی نماز پڑھی پھر انتظار کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہوگیا تو عشاء کی نماز پڑھی ،پھر فرمایا رسول ﷺ کو جب کسی کام کی جلدی ہوتی تو وہ ایسے ہی کرتے جیسے میں نے کیا ۔
صحيح البخاری (1/ 149) میں ہے:
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أعجله السير في السفر يؤخر صلاة المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء قال سالم وكان عبد الله يفعله إذا أعجله السير ويقيم المغرب فيصليها ثلاثا ثم يسلم ثم قلما يلبث حتى يقيم العشاء فيصليها ركعتين ثم يسلم ولا يسبح بينهما بركعة ولا بعد العشاء بسجدة حتى يقوم من جوف الليل.
صحيح مسلم (1/ 245) میں ہے:
عن ابن شهاب عن أنس بن مالك قال كان النبي صلى الله عليه وسم إذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل فجمع بينهما…….
الدر المختار (2/ 55) میں ہے:
( ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر ) سفر ومطر خلافا للشافعي وما رواه محمول على الجمع فعلا لا وقتا ( فإن جمع فسد لو قدم ) الفرض على وقته ( وحرم لو عكس ) أي أخره عنه ( وإن صح) بطريق القضاء ( إلا لحاج بعرفة ومزدلفة )…………….. ( قوله : محمول إلخ ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلا لا وقتا : أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها ، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved