• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(1)کیا قبر   کو چو منا  جائز  ہے ؟ (2) قبر کو تعظیماً سجدہ کر نے  کا کیاحکم ہے ؟

استفتاء

(1)کیا قبر کو  چو منا  جائز  ہے  ؟ (2)تعظیما قبر کو سجدہ کرنے کاکیا حکم ہے؟ دلیل کے ساتھ جواب مطلو ب ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-2قبرکوچومنااورتعظیماسجدہ کرناجائزنہیں۔

شرح الفقہ الاکبر (ص:187)میں ہے:

والسجدةحرام لغيره سبحانه وتعالي.

حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح (261) میں ہے:

 ولايمسح القبرولايقبله ولايمسه فان ذالك من عاداةالنصاري.

المدخل لابن الحاج (1/ 262)

ومن وقف بالقبرلايلتصق به ولايمسه…..فينبه العالم غيره على ذلك ويحذرهم من تلك البدع التي أحدثت هناك فترى من لاعلم عنده يطوف بالقبرالشريف كمايطوف بالكعبةالحرام ويتمسح به ويقبله.

شرح الفقہ  الا کبر  (193 ) میں ہے

من سجدللسلطان بنيةالعبادةاولم يحضرهافقدكفرومن سجدلهم ان ارادبه التعظيم اي كتعظيم الله سبحانه كفروان ارادبه التحيةاختاربعض العلماءانه لايكفراقول هذاهوالاظهروفي الظهيرية قال بعضهم يكفرمطلقا.

فتاوى محمو دیہ (1/285 )میں  ہے ؛

مزار  کے دروازے  پر جاکر سر رکھنا  سجدے کی ہیئت  بنانا اگر  بقصد  تعظیم  ہو تو حرام  ہے اور اگر  بقصد عبادت  ہو تو شرک ہے  قبر کوبو سہ دینا یامزار کے  در ودیوار کو  چومنا بھی حرام  ہے۔

امدادالفتاوی جدیدمطول(11/510)میں ہے:

سوال:والدین کی قبر کے تقبیل میں یہاں کے علماء دو فریق ہوگئے ہیں ۔ بعض اس کے جواز میں عالمگیری کی اس عبارت کو پیش کرتے ہیں ولایمسح القبر ولا یقبله فإن ذٰلک من عادة النصاریٰ ولا بأس بتقبیل قبر والديه کذا في الغرائب ۔اور علماء کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ تقبیل قبر والدین جائزنہیں ہے فی مأتہ مسائل صفحہ ۷۷۰۔سوال۔  بوسہ گرفتن قبر والدین چہ حکم دارد۔

جواب:  بوسہ دادن قبر والدین غیر جائز است علی الصحیح۔ فی مدارج النبوۃ:  وبوسہ دادن قبر را وسجدہ کردن آنراو کلہ نہاندن حرام وممنوع ست ودربوسہ دادن قبر والدین روایت فقہی نقل می کنند وصحیح آن ست کہ لا یجوز انتہیٰ اور مجموعہ فتاویٰ مولانا عبد الحیٔؒ لکھنوی صفحہ۳/۴۷۰ میں ہے۔سوال۔ بوسہ دادن قبر والدین جائز ست یا نہ؟جواب: حرام ست کہ کذا صرح علی القاری وغیرہ اور غریب کتاب سے فتویٰ دینا صحیح نہیں ہے۔ درمختار ص ۵۲ ج ۱ میں ہے فلا یجوز الإفتاء ممافي الکتب الغریبة۔ اب کس فریق کا قول قابل تسلیم ہے اور کس کا نہیں بینوا توجروا۔

جواب: منع متعین ہے۔ اور قول بلا دلیل بلکہ خلاف دلیل غیر مقبول ہے۔

امدادالفتاوی جدیدمطول(11/359)میں ہے:

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ قبور کو بوسہ دینا اور ان کو تعظیماً سجدہ کرنا اور اولیاء کرام کا برسویں دن عرس کرنا اور منتیں ماننا اور قبروں کا طواف کرنا اور قبروں پر نوبتِ نقارہ بجانا اور ان پر چراغ جلانا اور ان پر غلاف چڑھانا اور ان کا پختہ بنانا اور محافل و مجالس میں بیٹھ کر مزا میر سننا اور دست بستہ کھڑے ہوکر( واجداور راقص کی تعظیم کرنا اور دست بستہ کھڑے ہوکراستاد کو قرآن شریف سنانا اور یا شیخ سلیمانؒ اور یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئاً للّٰہ کا وظیفہ پڑھنا شرع شریف میں جائز ہے یا نہیں ۔ بینوا تو جروا فقط؟

جواب: ان امور میں بعضے تو بالکل شرک ہیں ۔ جیسے تعبداً سجدہ کرنا اور منتیں ماننا اور طواف کرنا اور شیخ عبد القادرؒ ویا شیخ سلیمانؒ کا وظیفہ پڑھنا جیسا عوام کا عقیدہ ہے ان کے مرتکب ہونے سے بالکل اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اور مشرک بن جاتا ہے۔ اَمَرَاَنْ لاَ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیَّاہُ ،اور بعضے امور بدعت و حرام ہیں ۔ ان کے کرنے سے بدعتی و فاسق ہوگا۔ کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار۔ البتہ اگر ان کو مستحسن و حلال سمجھے گا تو خوف کفر کا ہے۔ کیونکہ استحلال معصیت کا کفر ہے۔ اورقرآن شریف کا استاد کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھنا بھی بہتر نہیں ۔ کیونکہ عبادت میں دست بستہ ہونا بجز خدا کے کسی کے سامنے روا نہیں ۔ واللّٰہ أعلم وعلمہ أتم و أحکم۔ فقط (امداد۔ ج۴۔ص ۵۵)۔

امدادالفتاوی جدیدمطول(11/455)میں ہے:

سوال: ایک مسئلہ کے متعلق شبہ ہے اس کی تحقیق سے سرفراز فرماویں ۔ وہ یہ ہے کہ آنحضور نے نشر الطیب میں جواز توسل کے مقام پر روایت نقل فرمائی ہے کہ قبر شریف بھی بوجہ ملابس ہونے کے مورد رحمت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ملا بست بھی سبب ورودِ رحمت ہے جس طرح ملبوسات یعنی کپڑا وغیرہ اولیاء اللہ کا بوجہ ملابستہ قابل تقبیل ہے اور اس کا چومنا اور آنکھ سے لگاناجائز اسی طرح مزارات اولیا اللہ بھی بوجہ ملابستہ اس کا بھی چومنا آنکھ سے لگانا جائز ہونا چاہئے حالانکہ ہمارے فقہاء علیہم الرحمۃ قبور کے بوسہ وغیرہ کو حرام فرماتے ہیں خواہ قبر کسی بزرگ کی ہو یا والدین کی اور بظاہر بوجہ ملابست بوسہ وغیرہ جائز ہونا چاہئے جیسا کہ کپڑے کا بوسہ، تحقیق اس میں کیا ہے اور ماخذ حرمت حضرات فقہاء علیہم الرحمۃ کی کونسی حدیث ہے۔ مدّلل تحریر فر ما کر عزت بخشیں ۔

جواب: یہ ضرور نہیں کہ تمام ملابسات سب احکام میں متساوی ہوں ۔ تقبیل ثوب میں کوئی دلیل نہی کی نہیں ۔ اس لئے اباحت اصلیہ پر ہے بخلاف قبور کے کہ اس کی تقبیل پر دلیل نہی موجود ہے فافترقا۔ اور وہ دلیل نہی ہم مقلدوں کے لئے تو فقہاء کا فتویٰ ہے اور فقہاء کی دلیل تفتیش کرنے کا ہم کو حق حاصل نہیں مگر تبرّعاًکہا جاتا ہے کہ وہ دلیل مشابہت ہے نصاریٰ کی۔ کما قالہ الغزالی اور احتمال ہے افضاء الی العبادۃ کا چنانچہ قبور کو سجدہ وغیرہ کیا جاتا ہے حتیٰ کہ اگر ثوب میں کہیں ایسا احتمال ہو تو وہاں بھی یہی حکم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved