- فتوی نمبر: 13-49
- تاریخ: 07 ستمبر 2019
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی تجویز کردہ کتاب کا بغور مطالعہ کیا لیکن اس میں نہ تو کوئی متبادل پیش کیا گیا ہے اورنہ ہی اعتراضات کا مدلل جواب جو کہ قرآن واحادیث کی روشنی میں ہو۔اس میں تو کوئی ذاتی رنجشیں ہیں جو کہ کسی عالم دین کو زیب نہیں دیتیں ۔آپ سے گذارش ہے کہ اس مسئلے پر قرآن واحادیث یا اجماع کی روشنی میں اور حوالہ جات کے ساتھ جواب دیں تاکہ ہماری اصلاح ہو سکے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
محترم ومکرم بندہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے ہماری تجویز کردہ کتاب کا مطالعہ کیا اس مطالعے کے نتیجے میں آپ نے چند باتیں ذکر کی ہیں :
۱۔ اس کتاب میں کوئی متبادل پیش نہیں کیا گیا ۔۔۔آپ کی اس بات کا جواب ’’جدید معاشی مسائل کی اسلامائزیشن کا شرعی جائزہ ‘‘کے پیش لفظ میں مذکور ہے آپ اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں ۔
۲۔ دوسری بات آپ نے یہ ذکر کی ہے کہ ’’(اس کتاب میں ) نہ اعتراضات کامکمل جواب جو کہ قرآن واحادیث کی روشنی میں ہو (مذکور ہے) اس کے بارے میں گذارش ہے کہ آپ جس اعتراض کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ اس کا مدلل جواب قرآن واحادیث کی روشنی میں نہیں دیا گیا آپ اس اعتراض کی نشاندہی کریں اور جواب کے مدلل نہ ہونے کی وجہ بھی ذکر کریں ہم ان شاء اللہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اس پر دوبارہ غور کرلیں گے ۔
۳۔ تیسری بات آپ نے یہ ذکر کی ہے کہ ’’اس میں تو کوئی ذاتی رنجشیں ہیں جو کہ کسی عالم دین کو زیب نہیں دیتیں ‘‘اس سلسلے میں بھی آپ سے گذارش ہے کہ ذاتی رنجشوں سے متعلق آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ ہمیں بھی فراہم کریں ۔
۴۔ آخر میں آپ نے گذارش کی ہے کہ ’’اس مسئلے پر قرآن واحادیث یا اجماع کی روشنی اور حوالہ جات کے ساتھ جواب دیں تاکہ ہماری اصلاح ہو سکے‘‘ آپ سے گذارش ہے کہ ہم نے اپنی مذکورہ کتاب میں تکافل کے نظام کے غیر شرعی ہونے پر جو دلائل دیئے ہیں ان میں سے کونسی دلیل ایسی ہے جو قرآن واحادیث یا اجماع کی روشنی میں نہیں ہے؟اور کونسی بات ایسی ہے جو بغیر حوالہ کے ہے؟ جو فقہی عبارات ہم نے ذکر کی ہیں کیا وہ قرآن واحادیث یا اجماع کی روشنی میں نہیں ہیں ؟اور کیا وہ عبارات حوالہ کے لیے کافی نہیں ہیں ؟اگر نہیں ہیں تو اس کی وجوہات تفصیل سے ذکر کریں تاکہ ان پر دوبارہ سے غور کیا جاسکے ۔
نوٹ: آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ براہ راست آکر بات کریں ہم ان شاء اللہ تسلی سے آپ کی بات سنیں گے اورقابل غور پر غور کریں گے ۔لیکن اگر آپ تکافل کے نظام کو شرعی کہنے پر ہی مصر ہیں تو پھر نہ کچھ لکھنے لکھانے کی ضرورت ہے اور نہ بات چیت کا کوئی فائدہ ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved