• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حق مہر کی رقم پر زکوۃ کاحکم

استفتاء

۱۔ زینب اپنے مال کی زکوۃ ادا کرنا چاہتی ہے جو تقریبا ایک لاکھ ہے۔اس کے ماسوا زینب کے پچاس ہزار روپے حق مہر کے ان کے خاوند کے پاس ہیں جو ابھی تک خاوند نے ادا نہیں کیے تو ایسی صورت میں ان پچاس ہزار روپے کی زکوۃ زینب کے اوپر ہے یا نہیں؟

۲۔ زید کے پاس ان کی بیوی کا حق مہر پچاس ہزار روپے کی صورت میں موجود ہے جو ابھی تک اس نے اپنی بیوی کو ادا نہیں کیا تو ایسی صورت میں پچاس ہزار کی زکوۃ زید پر ہے یا نہیں؟

نوٹ:مہرمؤجل تھا ۔ایک سال کی مدت پر ت (تہیہ)ھا جو کہ سال پورا ہو چکا ہے اب تک مہر کی ادائیگی نہیں ہوئی ۔نیز شوہر مہر ادا کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس ابھی رقم نہیں ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔امام ابو حنیفہؒ کے نزیک مذکورہ صورت میں زینب پر ان پچاس ہزار روپے کی زکوۃ واجب نہیں ،البتہ صاحبینؒ کے نزدیک واجب ہے لہذا اگر زینب ان پچاس ہزار روپے کی زکوۃ بسہولت ادا کرسکتی ہے تو ادا کردینا بہتر ہے ۔

فی الشامیة218/3

وعندقبض مائتین مع حولان الحول بعدہای بعد القبض من دین ضعیف وھو بدل غیر مال کمهر ودیة۔

۲۔ مذکوره صورت میں ان پچاس ہزار روپے کی زکوۃ شوہر پر واجب نہیں۔

فی الشامیة163/3

(وسببه )ای سبب افتراضها (ملک نصاب حولی )تام (فارغ عن دین له مطالب من جهة العباد)سواءکان لله کزکوة وخراج او للعبد ولو کفالة او مؤجلا ولو صداق زوجته المؤجل ۔

بدائع الصنائع (2/ 10)

وجملة الكلام في الديون أنها على ثلاث مراتب في قول أبي حنيفة دين قوي ودين ضعيف ودين وسط كذا قال عامة مشايخنا

 أما القوي فهو الذي وجب بدلا عن مال التجارة كثمن عرض التجارة من ثياب التجارة وعبيد التجارة أو غلة مال التجارة ولا خلاف في وجوب الزكاة فيه إلا أنه لا يخاطب بأداء شيء من زكاة ما مضى ما لم يقبض أربعين درهما فكلما قبض أربعين درهما أدى درهما واحدا وعند أبي يوسف ومحمد كلما قبض شيئا يؤدي زكاته قل المقبوض أو كثر

 وأما الدين الضعيف فهو الذي وجب له بدلا عن شيء سواء وجب له بغير صنعه كالميراث أو بصنعه كالوصية ( ( ( كما ) ) ) أو وجب بدلا عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن القصاص وبدل الكتابة ولا زكاة فيه ما لم يقبض كله ويحول عليه الحول بعد القبض

 وأما الدين الوسط فما وجب له بدلا عن مال ليس للتجارة كثمن عبد الخدمة وثمن ثياب البذلة والمهنة وفيه روايتان عنه ذكر في الأصل أنه تجب فيه الزكاة قبل القبض لكن لا يخاطب بالأداء ما لم يقبض مائتي درهم فإذا قبض مائتي درهم زكى لما مضى وروى ابن سماعة عن أبي يوسف عن أبي حنيفة أنه لا زكاة فيه حتى يقبض المائتين ويحول عليه الحول من وقت القبض وهو أصح الروايتين عنه

 وقال أبو يوسف ومحمد الديون كلها سواء وكلها قوية تجب الزكاة فيها قبل القبض۔۔۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved