- فتوی نمبر: 25-210
- تاریخ: 10 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان > مہر کا بیان
استفتاء
میرے سسر اور میری بیوی نے عدالت میں خلع کا مقدمہ کیا ہوا ہے،میری بیوی گھر کو بسانا چاہتی ہے مگر میرے سسر نہیں چاہتے اور اسے ورغلا کے خلع کا دعوی کیا ہوا ہے اورجتنے عرصہ سے بیوی اپنے والد کے گھر رہ رہی ہےاس کےخرچ کا بھی دعویٰ کیا ہوا ہے تو کیا وہ اور میری بچی خرچ کی حقدار ہیں؟
تنقیح:میں بیوی کو اس کے والدین سے ملنے کے لیئے خودان کےگھر چھوڑ کر آیا تھا لیکن پھر اس کے والدین نے اسے وہیں روک لیااور میرے مطالبے کے باوجود اسے نہیں بھیجا۔اور ہم نے باہمی رضا مندی سے ماہانہ دو ہزار خرچہ بھی مقرر کیا ہوا تھا مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ میرے گھر کو آباد رکھے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ میاں بیوی نے باہمی رضامندی سے ماہانہ خرچہ مقرر کر لیا تھااس لیے جتنے دن بیوی شوہر کی رضامندی سے والدین کے گھر رہی اتنے دنوں کے خرچے کا وہ مطالبہ کرسکتی ہےاور جتنا عرصہ شوہر کے بلانے کے باوجود بیوی واپس نہیں آئی اتنے عرصہ کےخرچے کی وہ حق دار نہیں رہی لہذا اس کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتی۔ البتہ بچی کا خرچہ اس کی شادی تک اس کے باپ کے ذمے ہے۔
فتاویٰ ہندیہ(3/3)میں ہے:’’الكبيرة إذا طلبت النفقة، وهي لم تزف إلى بيت الزوج فلها ذلك إذا لم يطالبها الزوج بالنقلة….. فإن كان الزوج قد طالبها بالنقلة، فإن لم تمتنع عن الانتقال إلى بيت الزوج فلها النفقة، فأما إذا امتنعت عن الانتقال، فإن كان الامتناع بحق بأن امتنعت لتستوفي مهرها فلها النفقة، وأما إذا كان الامتناع بغير الحق بأن كان أوفاها المهر أو كان المهر مؤجلا أو وهبته منه فلا نفقة لها كذا في المحيط‘‘ہدایہ(2/440)میں ہے:” وإذا مضت مدة لم ينفق الزوج عليها وطالبته بذلك فلا شيء لها إلا أن يكون القاضي فرض لها النفقة أو صالحت الزوج على مقدار نفقتها فيقضي لها بنفقة ما مضى "در مختار مع ردالمحتار(5/345)میں ہے:’’(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله)… (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاقال ابن عابدین: (قوله لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم(قوله كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved