• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح کے بعد زوجین باہمی رضامندی سے مہر میں کمی یا زیادتی کرلیں تو قبل الدخول یا بعد  الدخول طلاق کی صورت میں کتنا مہر لازم ہوگا؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید اپنی بیوی کے مہر میں مثلا 500 کا اضافہ کرتا ہے جبکہ عقد نکاح کے وقت مہر 5000 روپے طے تھا، یا بیوی شادی کے بعد اس مہر میں مثلا 500 کمی کرنا چاہتی ہے  تو آیا یہ (1)کمی زیادتی جائز ہے یا نہیں؟ نیز اگر جائز ہے تو (2)طلاق قبل الدخول یا بعد الدخول کی صورت میں مہر میں شوہر نے جو اضافہ کیا ہو بیوی اس کی مستحق ہوگی یا نہیں نیز (3)بیوی نے اگر مہر میں کمی کردی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مقررہ مہر میں شوہر کا اضافہ کرنا یا بیوی کا کمی کرنا جائز ہے۔

(2) شوہر کی طرف سے مہر میں اضافے کے بعد طلاق قبل الدخول (ہمبستری یا خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق) کی صورت میں بیوی اس اضافے کی مستحق نہ ہو گی اور طلاق بعد الدخول (ہمبستری یا خلوت صحیحہ کے بعد طلاق) کی صورت میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:

۱۔  اگر بیوی نے اسی مجلس میں اضافہ قبول کرلیا تھا جس میں شوہر نے اسے پیشکش کی تھی تو  اضافے کے ساتھ پورا مہر شوہر کے ذمے لازم ہوگا،

۲۔ اور اگر اسی مجلس میں بیوی نے وہ اضافہ قبول نہ کیا تو کسی صورت میں شوہر کے ذمے اضافہ لازم نہ ہوگا۔  کیونکہ شوہر مہر میں جتنا اضافہ کرے گا وہ اضافہ بیوی کے لیے بمنزلہ ہبہ کے ہے اور ہبہ کے لیے مجلس میں قبول کرنا شرط ہے۔

(3)  اور اگر بیوی مہر میں کمی کر دے تو بیوی نے جتنی کمی کی ہوگی اتنا مہر شوہر کے ذمے سے ساقط ہوجائے گا، چاہے شوہر نے وہ کمی قبول کی ہو یا نہ کی ہو، پھر طلاق کی صورت میں تفصیل یہ ہے کہ:

۱۔ طلاق قبل الدخول (ہمبستری یا خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق) کی صورت میں بقیہ مہر کا نصف شوہر کے ذمہ واجب ہوگا۔

۲۔ طلاق بعد الدخول (ہمبستری یا خلوت صحیحہ کے بعد طلاق) کی صورت میں بقیہ مہر پورا شوہر کے ذمے لازم ہوگا۔

در مختار (4/222) میں ہے:

’’(وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها و) يجب (الأكثر منها إن سمى) الأكثر ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما) ……. (و) يجب (نصفه بطلاق قبل وطء أو خلوة)‘‘

در مختار مع رد المحتار (4/237) میں ہے:

’’(وما فرض) بتراضيهما أو بفرض قاض مهر المثل (بعد العقد) الخالي عن المهر (أو زيد) على ما سمي فإنها تلزمه بشرط قبولها في المجلس أو قبول ولي الصغيرة ومعرفة قدرها وبقاء الزوجية على الظاهر. نهر ……… (لا ينصف) لاختصاص التنصيف بالمفروض في العقد بالنص، بل تجب المتعة في الأول ونصف الأصل في الثاني. (وصح حطها) لكله أو بعضه (عنه) قبل أو لا، ويرتد بالرد كما في البحر

قوله: (فإنها تلزمه) أي الزيادة إن وطئ أو مات عنها، وهذا التفريع مستفاد من مفهوم قوله لا ينصف. أي بالطلاق قبل الدخول، فيفيد لزومه وتأكده بالدخول ومثله الموت…….. قوله: (لا ينصف) أي بالطلاق قبل الدخول بحر، وهذا خبر قوله وما فرض إلخ. قوله: (بالمفروض) متعلق باختصاص، وقوله في العقد متعلق بالمفروض، وقوله بالنص: أي قوله تعالى – {فنصف ما فرضتم} [البقرة: 237]- متعلق باختصاص: أي وما فرض بعد العقد أو زيد بعده ليس مفروضا في العقد. قوله: (بل تجب المتعة في الأول) أي فيما لو فرض بعد العقد لأن هذا الفرض تعيين للواجب بالعقد وهو مهر المثل وذلك لا ينتصف فكذا ما نزل منزلته. نهر. وعند أبي يوسف لها نصف ما فرض، والأول أصح كما في شرح الملتقى. قوله: (ونصف الأصل في الثاني) أي فيما لو زاد بعد العقد ……… قوله: (ويرتد بالرد) أي كهبة الدين ممن عليه الدين ذكره في أنفع الوسائل بحثا وقال لم أره. واستدل له في البحر بما في مداينات القنية قالت لزوجها أبرأتك ولم يقل قبلت، أو كان غائبا فقالت أبرأت زوجي يبرأ إلا إذا رده. اهـ قال في النهر: ولا يخفى أن المدعي إنما هو رد الحط وكأنه نظر إلى أن الحط إبراء معنى‘‘

البحر الرائق شرح کنز الدقائق (3/249) میں ہے:

صح النكاح بلا ذكره، وأقله عشرة دراهم  فإن سماها أو دونها فلها عشرة بالوطء أو بالموت وبالطلاق قبل الدخول يتنصف…….  وما فرض بعد العقد، أو زيد لا ينتصف وصح حطها

قوله: (وبالطلاق قبل الدخول يتنصف) …….. وشمل الدخول الخلوة لما في المجتبى: ولم يذكر الخلوة مع أنها شرط لما أن اسم الدخول يشملها لأنها دخول حكما. اه

قوله: (وما فرض بعد العقد أو زيد لا يتنصف) أي بالطلاق قبل الدخول …… وأما ما زيد على المسمى فإنما لا يتنصف لما ذكرنا أن التنصيف يختص بالمفروض في العقد ودل وضع المسألة على جواز الزيادة في المهر بعد العقد وهي لازمة له بشرط قبولها في المجلس على الأصح كما في الظهيرية……. قوله: (وصح حطها) أي حط المرأة من مهرها؛ لأن المهر في حالة البقاء حقها والحط يلاقيه حالة البقاء والحط في اللغة الإسقاط كما في المغرب. أطلقه فشمل حط الكل أو البعض وشمل ما إذا قبل الزوج أو لم يقبل بخلاف الزيادة فإنه لا بد في صحتها من قبولها في المجلس كما قدمناه.

الاختیار لتعلیل المختار (ص463)میں ہے:

قال: (وإن زادها في المهر لزمته الزيادة) لما مر في البيوع في الزيادة في الثمن ‌والمثمن

[وقال قبله في البيوع (ص:190)]: قال: (وتجوز الزيادة في الثمن والسلعة، والحط من الثمن ……… ولا بد في الزيادة من القبول في المجلس لأنها تمليك.

فتاویٰ دار العلوم دیوبند (8/204) میں ہے:

’’(سوال ۱۲۶۸):  اگر بوقتِ نکاح  زوجین  بالغ ہوں اور دین مہر متعین ہوجاوے تو بعد نکاح اس مقدار معینہ دین مہر  میں جو وقت نکاح قرار پایا تھا، تو سیع ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اگر ہوسکتی ہے تو حسبِ استدعاء زوجہ یا شوہر خود بغیر استدعاء  زوجہ بھی توسیع کرسکتا ہے؟ اگر توسیع جائز ہے تو بعد نکاح کس وقت؟ ہمہ  وقت یا بعد  خلوت صحیحہ؟

(الجواب):  درمختار میں ہے  : وما فرض…. الخ. بعد العقد…… الخ. او زید علی ما سمی  فانها تلزمه بشرط قبولها فی المجلس الخ. پس   معلوم ہوا کہ مہر کا زیادہ کرنا بعد قبول کرنے عورت کے صحیح و معتبر ہے اور لازم ہوجاتا ہے خواہ عورت کی طلب پر ہو یا خود شوہر زیادتی کردیوے اور بعد دخول کے ہویا قبل دخول کے، غرض یہ کہ کسی وقت ہو، لیکن وجوب اس زیادتی کا بعد دخول یا موت کے ہے اور اگر قبل دخول و خلوت  طلاق ہوجاوے تو وہ زیادتی ساقط ہے، اصل مہر کا نصف لازم ہوجاتا ہے ۔  ہکذا فی  الدرالمختار والشامی۔ فقط‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved