• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

آپﷺ کو ” نور اللہ یا نور من نور اللہ” کہنا

استفتاء

کیا آقا کریم حضرت محمدﷺ کو نور اللہ یا نور من نور اللہ کہنا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر آپ ﷺ کو "نور اللہ "یا "نور من نور اللہ ” کہنے سے مقصود یہ ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالی کے نور کا جزء ہیں یا”نوراللہ اور نور من نور اللہ”  کہنے سے مقصود آپﷺ کے بشر ہونے کی نفی ہے تو ان صورتوں آپ ﷺ کو نور اللہ یا نو ر من نور اللہ کہنا جائز نہیں۔

اور اگر مقصود یہ ہے کہ آپﷺ کی ذات مبارکہ سراپا  نورہدایت ہے تو اس صورت میں آپﷺ کو نور اللہ کہنا درست ہے تا ہم نور من نور اللہ کہنا اس صورت میں بھی درست نہیں کیونکہ ایک تو  ان الفاظ سے جزئیت کا شبہ ہوتا ہے اور دوسرے اہل بدعت ان الفاظ کو جزئیت کے معنی میں استعمال کرتے  ہیں اس لئے یہ الفاظ کہنے سے ان کے ساتھ مشابہت ہوگی۔

تفسیر مدارک (1/313) میں ہے:

{قد جاءكم من الله ‌نور ‌وكتاب مبين} يريد القرآن لكشفه ظلمات الشرك والشك ولابانته ما كان خافيا على الناس من الحق أو لأنه ظاهر الإعجاز أو النور محمد عليه السلام لأنه يهتدى به كما سمي سراجا

روح المعانی (6/97) میں ہے:

قد جاءكم من الله نور عظيم وهو ‌نور ‌الأنوار والنبي المختار صلى الله عليه وسلم، وإلى هذا ذهب قتادة، واختاره الزجاج، وقال أبو علي الجبائي: عنى بالنور القرآن لكشفه وإظهاره طرق الهدى واليقين

فتاویٰ محمودیہ (1/514) میں ہے:

حضرت نبی اکرمﷺ کو جب اللہ تعالیٰ نے بشر قرار دیا اور بشریت کے اعلان کا حکم فرمایا تو آپ کو بشر نہ ماننا خدائے قہار کا  مقابلہ کرنا ہے۔ حضرت نبی اکرمﷺ کو نور فرمایا گیا ہے جبکہ قرآن کریم کو بھی نور فرمایا گیا ہے اس کا مطلب خود قرآن شریف میں موجود ہے۔

{قد جاءكم من الله نور وكتاب مبين. ‌يهدي ‌به الله من اتبع رضوانه سبل السلام} أي: طرق النجاة والسلامة ومناهج الاستقامة {ويخرجهم من الظلمات إلى النور بإذنه ويهديهم إلى صراط مستقيم} أي: ينجيهم من المهالك، ويوضح لهم أبين المسالك فيصرف عنهم المحذور، ويحصل لهم أنجب الأمور، وينفي عنهم الضلالة، ويرشدهم إلى أقوم حالة [تفسير ابن كثير،2/34]

یعنی آپ کی ہدایت پر عمل کرنے سے آدمی بادیۂ ضلالت کی تاریکیوں سے نکل کر سبیل الرشاد اور صراط مستقیم کی روشنی میں آجاتا ہے پھر نافرمانی کی مہلکات سے بچ کر اطاعت کے جادہ مستقیم پر گامزن ہو کر  سخط وغضب کے مظہر جہنم سے نجات پاتا اور رحمت ورضوان کے مظہر جنت میں دخول کی سعادت حاصل کرتا ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صفاتِ بشری ، کھانے، پینے ، سونے، جاگنے، بیٹھنے، لیٹنے ، خرید وفروخت جنگ وصلح، نکاح وطلاق، بیماری وصحت وغیرہ امور سے بے نیاز اور بری تھے۔

کفایت المفتی (1/97) میں ہے:

آپﷺ کے نور کو اللہ تعالیٰ کے نور کا حصہ یا جزء سمجھنا درست نہیں کیونکہ حضورﷺ کے لیے قرآنی اور حدیثی تعلیم یہ ہے "نشهد ان محمدا عبده ورسوله”یعنی ہم اس کی گواہی دیتے ہیں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور پیغمبر ہیں۔ حضورﷺ اور حضورﷺ کا نور مخلوق ہے اور خدا تعالیٰ کا نور غیر مخلوق ہے اور مخلوق غیر مخلوق کا جزء یا حصہ نہیں ہوسکتا۔

احسن الفتاویٰ (1/56) میں ہے:

حقیقت یہ ہے کہ نور بمعنی ہدایت ہی اصل کمال ہے اور یہ ظاہری روشنی سے بدرجہا زیادہ افضل ہے، چنانچہ سورج ، چاند اور ستارے ظاہری نور ہونے کے باوجود بشر کے خادم ہیں۔ وسخر لكم الشمس والقمر دائبین ۔ چونکہ بشر اشرف المخلوقات ہے اس لیے اللہ تعالی نے نور ہدایت کے لئے بشر ہی کو منتخب فرمایا۔ ارشاد ہے انا عرضنا الأمانة على السموات والارض والجبال فابين ان يحملنها و اشفقن منها وحملها الانسان، منکرین بشریت حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم فداہ ابی و امی کو اشرف المخلوقات کی جنس اور بشریت کے اعلیٰ ترین مقام سے گرا کرکس مخلوق میں داخل کرنا چاہتے ہیں ؟ اگر ان کا مطلب یہ ہے کہ ملائکہ کی طرح آپ بھی مجردات میں سے ہیں تو یہ مد0عیان محبت نادان دوست کی طرح محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرایا ۔حضور اکرمﷺ  تو حضرت آدم علیہ السلام سے بھی افضل ہیں۔ بشریت و رسالت میں تضاد کفار کا عقیدہ تھا، وہ کہتے تھے  کہ رسول صرف فرشتہ ہی ہو سکتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے انکے اس غلط عقیدہ پر قرآن کریم میں جابجا تردید فرمائی ہے۔ الغرض حضور اکرمﷺ  نور بھی ہیں اور بشر بھی، آپ کی بشریت کا انکار نصوص قرآنیہ کے خلاف اور آپ کی توہین کو مستلزم ہونیکی وجہ سے کفر ہے ۔ فقط واللہ تعالٰی اعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved