- فتوی نمبر: 33-103
- تاریخ: 30 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وقف کا بیان > مساجد کے احکام
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے روڈ کی آبادی کیلئے روڈ کے کنارے پر ایک مسجد بنائی۔ پھر دوسرے شخص نے مسجد کی زمین پر دعوی کر دیا۔اب میں نے اس مسجد کو منہدم کیا اور اپنے گھر کے قریب اپنی ملکیتی زمین پر اپنے ذاتی پیسوں سے مسجد بنوائی، اور گھر کے قریب والی مسجد کی زمین کو وقف نہیں کیا، بلکہ میں نے کہا کہ دعوی ختم ہونے تک مسجد یہاں آباد ہو گی، اور جب دعوی ختم ہوا تو مسجد کو دوبارہ اپنی جگہ پر منتقل کردوں گا۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ اس زمین کا کیا حکم ہے جس پر عارضی مسجد بنائی گئی ہے؟ یعنی مسجد منتقل ہونے کی صورت میں اس زمین کو گھر کےلئے استعمال میں لانا جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ زمین مسجد کے حکم میں نہیں ہے لہٰذا اسے گھر کے لیے استعمال میں لانا جائز ہے۔
توجیہ: مسجد کے حکم میں وہ زمین ہوتی ہے جسے واقف نے ہمیشہ کے لیے مسجد کے نام پر وقف کیا ہو۔ مذکورہ صورت میں چونکہ واقف نے زمین کو ہمیشہ کے لیے مسجد کے نام پر وقف نہیں کیا بلکہ عارضی طور پر نمازیں شروع کرائی ہیں لہٰذا یہ مسجد کے حکم میں نہ ہوگی۔
فتح القدیر (6/218) میں ہے :
وفي فتاوی قاضی خان : رجل له ساحة لابناء فيها أمر قوما أن يصلوا فيها بجماعة قالو: إن أمرهم بالصلوة فيها أبدا أو أمرهم بالصلوة بجماعة ولم یذكر الأبد إلا أنه أراد الأبدثم مات لا يكون ميراثا عنه، وإن أمرهم بالصلاة شهراً أو سنة ثم مات يورث عنه لأنه لا بد من التابيد والتوقيت ینافيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved