• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدلت کے ذریعے کرایہ دار کو بے دخل کرنے طریقہ کار

استفتاء

ہم لوگ چار بھائی ہیں۔ ہمارے والد صاحب ایک کارخانہ چلاتے تھے۔ ایک عرصہ تک وہ اس میں کاروبار کرتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد وہ بڑے بھائی صاحب کو بھی اپنے ساتھ کارخانہ میں لے گئے۔ وہ بھی والد صاحب کے ساتھ کام کرتے تھے۔ جبکہ ان کی عمر 21 سال تھی۔ وہ بھی مزدوری کرتے رہے کچھ عرصہ گذرنے کے بعد وہ دوسرے بھائی کو بھی کارخانہ میں لے گئے جس کی عمر 17 سال تھی۔ والد صاحب تبلیغی سفر پر روانہ ہوگئے 1994ء میں ۔ جبکہ اس دوران انہوں نے ہمشیرہ اور بھائی کی شادی بھی کی۔ بھائی 1988 میں کام پہ آگئے۔ اور چھ سال محنت کرتے رہے۔ دوسرے بھائی جس کو وہ 1990 میں کام پہ لے گئے اس کی شادی 1998 میں ہوئی۔ اور وہ نو سال محنت کرتے رہے۔ والد صاحب تبلیغی سفر سے واپس آنے کے بعد کام پہ نہیں گئے۔ دونوں بڑے بھائی مزدوری کرتے۔ اور گھر کا خرچہ چلاتے رہے۔ دونوں بڑے بھائیوں نے بارہا والد صاحب سے گذارش کی کہ دونوں چھوٹے بھائیوں کو بھی کام میں شریک کیا جائے۔ تو والد صاحب نے یہ عذر کیا کہ وہ پڑھ رہےہیں ان کو پڑھنے دو۔ یہ انشاء اللہ تمہارے آگے آنکھ نہیں اٹھا سکتے کہ تم نے ان کی خدمت کی ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھا ہے جب دونوں بڑے بھائیوں نے والد سے یہ گذارش کی کہ کل وہ اس سب کاحساب مانگیں گے تو ہم کیا جواب دیں گے۔ تو والد صاحب نے کہا اور بارہا فرمایا کہ سب کچھ تمہارا ہے تم کھا جاؤ، پی جاؤ، عیاشی کرو، تمہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اس دوران گھر کی ضروریات پوری ہوتی رہی۔ دونوں چھوٹے بھائی پڑھ لکھ گئے۔ سب سے چھوٹے بھائی نے ملازمت کی تو اس کو والد صاحب نے فرمایا تم اپنی کمائی علیحدہ رکھو۔ اور درمیان والے بھائی سے کہا تم  پڑھو، تمہیں پڑھانے کے میرے پاس بہت پیسے ہیں۔ وہ بھائی تاحال کام نہیں کرتے جبکہ ان کی عمر 33 سال ہے۔ والد صاحب نے ان کی شادی کے لیے دو لاکھ قرضہ بھی لیا۔ کاروبار چونکہ کرائے کی جگہ پر تھا۔ اس لیے مالک دکان نے کارخانہ خالی کروالیا تو دونوں بڑے بھائیوں نے والد صاحب کی زمین پر اپنی مشقت والی کمائی سے جو کہ انہوں نے والد صاحب کی دکان پر مزدوری کی تھی تعمیر کی( جس میں والد کا263000 جبکہ 237000 ۔۔۔۔)۔ اس سے کرائے آنے شروع ہوئے۔ دونوں بڑے بھائیوں نے مزید گھر کا خرچہ چلایا۔ اور ویسے بچا بچا کر تین عدد دکانیں تعمیر کی(جس میں سات لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ کیا دونوں بڑے بھائی جو انہوں نے دکانیں تعمیر کی ہیں کرایہ لینے کا حق رکھتے ہیں؟) جوکہ اس وقت بھی کرائے پر ہیں۔ اب جبکہ کارخانہ میں کام کرنے والے دونوں بھائی اور دونوں چھوٹے بھائی گھر میں کچھ نہیں دیتے اور خرچہ اب کرایوں سے چلتا ہے۔ والد صاحب اب بھی چھوٹے بھائیوں کو مزدوری کا کہنے کے بجائے بڑے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ تم علیحدہ ہو جاؤ۔ میں کرائے سے گھر چلاؤں گا۔ اور نہیں  دوں گا۔ چونکہ تم نے میری دکان سے سب کچھ کمایا ہے اس لیے جو کہ تم نے جمع کیا ہے وہ بھی مجھے دے دو۔ 25 فیصد کارخانے کا بھی مجھے دو۔ اب جبکہ خرچہ کرایوں سے چلتا ہے تو والد صاحب ان بھائیوں کو کچھ کام کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے فرماتے ہیں ان کا خرچہ کرایوں سے چلے گا۔ میں تم کو کچھ نہیں دوں گا میری مرضی کوئی مجھے پوچھ نہیں سکتا۔ بلکہ تم نے جو 20 ماہ میں جمع کیا ہے وہ بھی دے دو۔ 16 سال کا حساب دو، 25 فیصد تین دکان کی کمائی بھی دو۔ اور علیحدہ ہو کر اپنا گھر چلاؤ۔

اس دوران ان ہمارے چھوٹے بھائی کو یونیورسٹی کی طرف سے ایک عدد پلاٹ بھی ملا تو والد صاحب نے پیسے دینے کو تو بھائی نے 85 ہزار روپے بھی دیے تو والد صاحب نے چاروں بھائیوں کے سامنے کلمے کی قسم کھا کر کہا یہ تم چاروں کا ہے کوئی اس میں خیانت کرے گا تو خدا سے پائے گا۔ اور دونوں بڑے بھائیوں کی بیگمات کے سامنے والد صاحب نے کھلے قران کے سامنے کلمے کی قسم کھا کر فرمایا میری زندگی ہوئی تو میں تمہیں بنا کر بھی دوں گا۔

والد صاحب فرماتے ہیں تم مجھے 16 سال کا حساب دو۔ تو بڑے بھائی نے قران اٹھا کر کہا کہ قران کی قسم میں نے اپنے لیے علیحدہ کچھ نہیں کمایا تو والد نے فرمایا میں تمہارے قران کو نہیں مانتا۔ اس بات کو جب مفتی صاحب سے دریافت کیا گیا کہ والد صاحب دو کو دینا چاہتے اور دو کو محروم کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا یہ مفتی کفایت اللہ صاحب والا فتویٰ دکھایا کہ والد گناہ گار ہوگا  لیکن قاضی کے سامنے وہ جواب دہ نہیں تو والد صاحب نے فرمایا ٹھیک میں رجسٹرڈ گناہگار ہوں تم مجھے پیسے دو۔ کیا اس طرح کہنے سے آدمی اللہ سے اعلان جنگ نہیں کررہا۔ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں قران و سنت کی روشنی میں۔ کیا یہ دونوں بڑے بھائی والد صاحب سے اپنے مزدوری والوں کے سالوں کی اجرت طلب کرنے کے حقدار ہیں اگر ہیں تو کس حساب سے؟ جبکہ بڑے بھائی نے شادی سے چھ سال پہلے کارخانہ میں مزدوری کی اور دوسرے بھائی نو سال مزدوری کی۔ اور والد صاحب کا یہ کہنا کہ تمہاری اولاد ۔۔۔ اس لیے تم کچھ حق نہیں رکھتے۔ بڑے بھائی کے بچوں کی عمر 12- 9- 7 اور چھوٹے کے بچوں کی عمر6- 4 -2 سال ہے۔

نوٹ: والد صاحب نے جب کارخانہ ہمارے حوالے کیا تو نام اور کارخانہ کی کچھ ضروریات تھی۔ جبکہ اب کارخانہ میں تیار مال اور خام مال کم از کم دو تین لاکھ کا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ سب کچھ چھوڑ دو یا 25 فیصد مجھے دو۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ تحریری حالات سے معلوم ہوا کہ بڑے دو بھائیوں نے والد کے سرمایہ سے کاروبار نہیں کیا۔ یعنی یہ نہیں ہے کہ والد نے کاروبار دیا ہو جس میں مال تجارت موجود ہو اور بھائیوں نے کام کر کے اس مال تجارت کو بڑھایا ہو بلکہ دو بڑے بھائیوں نے محنت مزدوری کر کے روپیہ کمایا ہے۔ والد کی جگہ تھی اور کچھ آلات تھے۔ ان حالات میں بھائیوں نے جو کچھ کمایا وہ خالص ان کا اپنا ہے۔ والد کو حق تھا کہ وہ جگہ کا کرایہ اور آلات کی اجرت وصول کرتے وہ انہوں نے وصول نہیں کیا اس کی جگہ خرچہ وصول کرتے رہے یہ بھی ٹھیک ہے۔ بہرحال دو بڑے بھائیوں نے جو کچھ کمایا اور کمائی سے کارخانہ اور دکانیں جو بھی تعمیرات کیں وہ سب خالص ان کی کمائی اور ان کا حق ہے۔ اس میں والد کا یا چھوٹے بھائیوں کا کچھ حصہ نہیں ہے۔

والد اگر چاہیں تو آئندہ کے لیے اپنی زمین کی ملکیت کے بقدر کرایہ وصول کرسکتے ہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved