- فتوی نمبر: 13-153
- تاریخ: 06 اپریل 2019
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک شخص جانور خرید کردیہات میں کسی شخص کو اس کی خدمت دیکھ بھال پر بھجوادیتا ہے اور معاملہ یہ طے کرتا ہے کہ جو پہلا بچہ ہو وہ اس کا (خادم کا) اور جانور جب فروخت کریں گے تو منافع نصف نصف تقسیم کرلیں گے ۔یہ صورت جائز ہے؟ اگر نہیں تو اس کی صحیح ترتیب کیا ہے؟کیونکہ چارہ کا خرچہ اور دیکھ بھال کی مزدوری مقرر کر نا مشکل ہے ۔
وضاحت مطلوب ہے :
۱۔ کیا باقی سارے بچے مالک کے ہوں گے ؟
۲۔ منافع سے کیا مراد ہے ؟
جواب وضاحت:
۱۔ بچے آدھے آدھے ہوں گے مگر ترتیب یہ ہے کہ پہلا بچہ خادم کا اس کے بعد جانور بک گیا تووہ اسی کا ہو گا اور اگر دوسرا بچہ بھی ہو گیا تو وہ مالک کا پھر تیسرا خادم کا چوتھا مالک کا ۔
۲۔ منافع سے مراد جانور کی قیمت خرید منہا کر کے باقی جتنا نفع ہو ۔
مولانا زکریاصاحب
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ معاملہ نہ حنفیہ کے نزدیک درست ہے اور نہ دوسرے ائمہ کے نزدیک ۔البتہ حنابلہ کے نزدیک اس کے درست ہونے کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ ہر بچہ دونوں کے درمیان مشترک ہو خواہ نصف نصف ہو یا کم وبیش ۔
الشرح الکبير لابن قدامة(19/5شامله)
ولو استأجر راعيا لغنم بثلث درها وصوفها وشعرها ونسلها أو نصفه أو جميعه لم يجز نص عليه أحمد في رواية سعيد بن محمد النسائي(والصحيح جعفربن محمد کما في المغني ومطالب اولي النهي وفي الانصاف جعفربن محمد النسائي کان الامام احمد ؒ يجله ويکرمه ويقدمه۔۔۔۔) لان الاجر غير معلوم ولا يصلح عوضا في البيع، قال اسمعيل بن سعيد سألت أحمد عن الرجل يدفع البقرة إلي الرجل علي أن يعلفها ويحفظها وولدها بينهما فقال اکره ذلک وبه قال ابو ايوب وأبو خيثمة ولا أعلم فيه مخالفا لان العوض معدوم مجهول لا يدري ايو جدام لا، والاصل عدمه ولا يصلح أن يکون ثمنا، فان قيل فقد جوزتم دفع الدابة إلي من يعمل عليها بنصف مغلها قلنا انما جاز ثم تشبيها بالمضاربة(لعل الصواب المزارعة کما في مطالب اولي النهي 594-3والمغني 8/5) ولانها عين تنمي بالعمل فجاز اشتراط جزء من النماء کالمضاربةوالمساقاة(لعل الصواب المزارعةبدل المضاربة کما في مطالب اولي النهي 594-3والمغني 8/5) وفي مسئلتنا لا يمکن ذلک لان النماء الحاصل في الغنم لا يقف حصوله علي عمله فيها فلم يمکن الحاقه بذلک،
وذکر صاحب المحرر(۱) رواية أخري انه يجوز بناء علي ما إذا دفع دابته أو عبده يجزء من کسبه والاول ظاهر المذهب لما ذکرنا من الفرق، وعلي قياس ذلک إذا دفع نحله إلي من يقوم عليه بجزء من عسله وشمعه يخرج علي الروايتين فان اکتراه علي رعيها مدة معلومة بجزء معلوم منها صح لان العمل والمدة والاجر معلوم فصح کما لو جعل الاجر دراهم ويکون النماء الحاصل بينهما بحکم الملک لانه ملک الجزء المجعول له منها في الحال فکان له نماؤه کما لو اشتراه ۔
هو مجد الدين ابو البرکات عبد السلام بن عبد الله بن ابي القاسم بن محمد بن تيمية (غير ابن تيميةالمعروف)قال الذهبي الحافظ کان الشيخ مجد الدين معدوم النظير في زمانه رأسا في الفقه واصوله بارعا في الحديث ومعانيه له اليدالطولي في معرفة القرآن والتفسير صنف التصانيف واشتهر اسمه وبعد صيته وکان فرد زمانه في معرفة المذهب مفرط الذکاء متين الديانة کبير الشان( ذيل طبقات الحنابلة:284/1)
© Copyright 2024, All Rights Reserved