• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

“اگر مجھ سے چوری بچوں کو ملی تو تمہیں طلاق ہے” کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

تقریباً 6 سال پہلے میں نے  بیوی سے کہا ” جو بچے ناراض ہو کر گھر سے چلے گئے  تھے ان کو نہیں ملنا، اگر  مجھ سے چوری ان کو ملی تو تمہیں طلاق  ہے، میری طرف سے فارغ ہے” لیکن بیوی کو ڈرانے کے لیے یہ بات کہی تھی، یہ الفاظ کہنے سے پہلے اور یہ الفاظ کہتے ہوئے طلاق دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، نہ بعد میں کوئی ارادہ  تھا، اپنے آپ سے دل میں یہ بات کہی کہ میں نے بیوی کو چھوڑنا نہیں صرف اس کو ڈرانے کے لیے یہ بات کروں گا، بیوی بچوں کو ملتی رہی اور کافی دیر ملتی رہی۔

کافی دیر بعد گھر میں جھگڑے کی کوئی صورت بنی تو بیوی نے کہا کہ میری آپ سے طلاق ہوچکی ہے کیونکہ میں بچوں کو آپ سے چوری  ملتی ہوں تب میں نے کہا کہ میں نے آپ کو ڈرانے کے لیے یہ بات کہی تھی ، طلاق کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے طلاق نہیں ہوئی۔ بہشتی زیور سے طلاق کے مسئلے نکال کر اپنی بھی تسلی کی اور بیوی کو بھی پڑھا کر تسلی کروادی، بیوی کی تسلی ہوجانے کے بعد بات ختم ہوگئی، کافی عرصہ بعد تقریباً 2 یا 3 سال پہلے پھر یہی مسئلہ کھڑا ہوگیا پھر بہشتی زیور سے مسائل دیکھ  کر سمجھا دیا ، بات ہوگئی۔ اب پھر یہی مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے اس لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ شریعت کی رُو سے جو بھی مسئلہ ہے لکھ کر بتادیا جائے تاکہ بات ختم ہوجائے۔اس سے کافی پہلے دو طلاقیں ہوچکی تھیں۔

شوہر کا مؤقف:

اس معاملے میں میرا مؤقف یہ ہے کہ جو معاملہ ہونا تھا ہوچکا ۔ میرے ذہن میں ذرا سا بھی شبہ نہیں کہ طلاق ہوچکی ہے۔ میرے لیے مسلسل  بلیک میلنگ کا سلسلہ بن چکا ہے جو بھی آپ مفتی صاحبان اور علمائے کرام فیصلہ فرمائیں گے انشاء اللہ قبول کروں گا ۔ مجھے شریعت کی رُو سے اصل حقیقت بتادی جائے ۔

بیوی کا مؤقف:

میں زید  ولد  خالد  اپنی والدہ  زینب  کی طرف سے تحریر کر رہا ہوں ان کی موجودگی اور  عمر بھائی کی موجودگی میں والدہ کے مطابق وقوعہ کچھ یوں ہوا کہ مجھے دو طلاق پہلے ہی ہوچکی ہیں اس کے بعد میرے شوہر کی طرف سے اس چیز کی پابندی لگائی گئی کہ اپنے بچوں کو نہیں ملنا جن سے میری ناراضگی ہے اور حد مقرر کی گئی کہ اگر میرے بچوں کو ملی، فون سنا، میسج کیا یا کسی میسج کا جواب دیا تو میری طرف سے طلاق ہے اور  طلاق دینی بھی نہیں پڑے گی از خود ہوجائے گی اس حد کے مقرر ہونے کے بعد میرا بچوں سے رابطہ قائم رہا میں اپنے ہوش ورضامندی سے فون کرتی  اور جواب دیتی کچھ عرصہ بعد میں نے اپنے شوہر سے تذکرہ کیا  کہ میں اپنے بچوں  کو فون کرتی رہی ہوں  اور رابطے میں رہی   ہوں جس پر انہوں نے کہا کہ میں اپنے الفاظ بولنے کے بعد نیچے اترا تو اپنے رب سے کہا کہ یا اللہ میں نے دل سے نہیں  کہا بس ڈرانے کے لیے اپنی بیوی کو بولا ہے، میں مطمئن ہوگئی لیکن  کچھ عرصہ بعد  میری  بیٹی  جو کہ میرے نچلے پورشن میں رہتی تھی اس کے فون پر میرے بڑے بیٹے کی کال آئی  جو میرے شوہر نے دیکھ لی ، اس واقعہ کے کچھ دن بعد مجھے کمرے میں بلایا اور مجھے میرے بچوں سے ملنے پر سوال کیا اور کہا کہ تم بچوں کو ملتی ہو اس بات  کو سن کر میں نے جھوٹ بولا کہ ” نہیں میں بچوں کو نہیں ملتی” اس پر میرے شوہر نے اصرار کیا کہ قرآن اٹھاؤ میں نے انکار کیا جس پر میرے شوہر نے کہا کہ “قرآن اٹھاؤ ورنہ تمہیں طلاق ہوگئی ہے”اس سارے مذکورہ واقعہ پر ضمیر پر بوجھ محسوس  کرتی  رہی ہوں اور شریعت کے مطابق  واضح رہنمائی چاہتی ہوں۔(دستخط: بیوی)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چھ سال پہلے شوہر نے جو مشروط طلاق دی تھی اس کی وجہ سے تیسری طلاق بھی واقع ہو چکی ہے جس کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ صلح ہوسکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ  صورت میں تقریبا چھ سال پہلے  جب شوہر نے بیوی کو یہ کہا تھا کہ “اگر مجھ سے چوری ان (بچوں) کو ملی تو تمہیں طلاق ہے ” تو ان الفاظ سے طلاق معلق ہوگئی تھی اور چونکہ جس شرط پر طلاق معلق کی گئی تھی وہ واقع ہوچکی ہے اس لیے معلق طلاق واقع  ہوچکی ہے۔ نیز مذکورہ تعلیق میں شوہر نے طلاق کا صریح لفظ  استعمال کیا تھا اور طلاق کے صریح   لفظ سے شوہر کی نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے لہٰذا  شوہر کا یہ کہنا کہ میرا ارادہ نہیں تھا  یا ڈرانے کے لیے کہا تھا وغیرہ اس کا اعتبار  نہ ہوگا۔نیز شوہر چونکہ اس سے پہلے بھی دو طلاقیں دے چکا تھا اس لیے اس حالیہ طلاق  سے تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی اور رجوع یا صلح کی گنجائش  بھی ختم ہو گئی۔

ہندیہ(1/420) میں ہے:

وإذا ‌أضافه ‌إلى ‌الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق

بدائع الصنائع (3/101) میں ہے:

‌أما ‌الصريح ‌فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله: ” أنت طالق ” أو ” أنت الطلاق، أو طلقتك، أو أنت مطلقة ” مشددا، سمي هذا النوع صريحا؛ لأن الصريح في اللغة اسم لما هو ظاهر المراد مكشوف المعنى عند السامع من قولهم: صرح فلان بالأمر أي: كشفه وأوضحه، وسمي البناء المشرف صرحا لظهوره على سائر الأبنية، وهذه الألفاظ ظاهرة المراد؛ لأنها لا تستعمل إلا في الطلاق عن قيد النكاح فلا يحتاج فيها إلى النية لوقوع الطلاق؛ إذ النية عملها في تعيين المبهم ولا إبهام فيها

ہندیہ (1/473) میں ہے:

وإن ‌كان ‌الطلاق ‌ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved