• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

“اگر تو نے گھر سے قدم باہر رکھا تو ایک، دو، تین تجھے طلاق” کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

محترم جناب حضرت مولانا مفتی محمد رفیق صاحب دامت برکاتہم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ:امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔

ایک استفتاء اور اس کا جواب یہاں سے لکھا گیا ہے ، پیش خدمت ہے ۔ صریح جزئیہ نہ ملنے کی وجہ سے اطمینان نہیں اور مسئلہ حرمت مغلظہ کے ہونے نہ ہونے کا ہے، اس لیے آپ حضرات کی رائے کی ضرورت ہے۔ امید ہے آپ اپنے قیمتی اوقات میں سے وقت نکال کر اپنی دلیل اور قیمتی رائے سے بندہ کو سرفراز فرمائیں گے۔ امید ہے آپ کی رائے بندہ کے لیے اطمینان کا سبب ہوگی ۔

فجزا کم اللہ احسن الجزاء

دعا جو و دعا گو: احمد ممتاز

جامعہ خلفائے راشدین، مدنی کالونی،گریکس

 ماری پور ہاکس بے روڈ کراچی نمبر13

سوال:شوہر نے بیوی سے کہا: “اگر تونے گھر سے قدم باہر رکھا تو ایک،دو،تین تجھے طلاق”…..اس کے بعد ماں نے اپنی بیٹی کو دھکے دے کر گھر سے سے زبردستی باہر نکال دیا اور اپنے گھر گئی، طلاق واقع ہو گئی یا نہیں؟

تنقیح: ماں بیٹی کو برابر دھکے دیتی رہی، یہاں تک کہ اسے گھر سے نکال دیا، ایسا نہیں کہ گھر کے اندر دھکے دیے، زبردستی کی اور پھر وہ خود گھر سے نکل گئی۔

مستفتی:***********

الجواب باسم ملہم الصواب: کتب فقہ میں دھکے دیے جانے کے متعلق کوئی صریح جزئیہ نہ مل سکا ،لیکن مذکورہ تعلیق میں قدم رکھنا مجاز ہے ” خروج” سے اور عرف ومحاورہ میں خروج” پر معلق تعلیقات میں “خروج” سے اپنی ذات کا ارادی و قصدی تصرف سے خروج مراد ہوتا ہے، چاہے وہ نکلنا با دل خواستہ ہو یا نخو استہ۔ اسی طرح اپنے حکم و درخواست سے غیر کے تصرف سے اخراج بھی عرفاً و محاورة ً” خروج “کی مراد میں شامل ہوتا ہے، جیسے کوئی کسی کو کہے کہ مجھے اٹھا کر باہر لے چلو تو اس غیر کے اخراج کو بھی “خروج “ہی کہتے ہیں۔

لیکن مذکورہ بالا دونوں باتیں نہ پائی جائیں کہ اپنا ارادی و قصدی تصرف (اپنے چلنے کے ارادے سے چل کر نکلنا  ) اور غیر کو حکم دینے پر اس کے تصرف سے نکلنا نہ پایا جائے تو عرف و محاورہ میں ایسا خروج قائل کی مراد کا حصہ نہیں ہوتا ، اسکو نکالا جانا کہا جاتا ہے اور عرف و محاورہ میں مُخرج ( جس کو نکالا گیا ہے ) کی طرف یہ نکلنا منسوب نہیں ہوتا ، لہذا دھکے دے کر یا ہاتھ سے پکڑ کر جبر اً نکالے جانے کی صورت میں حانث نہ ہونا چاہیے اور اس عورت پر طلاق واقع نہ ہونی چاہیے۔

البتہ ماں کی جانب سے دھکے دے کر نکالے جانے کے بعد دوبارہ اگر گھر میں آئی تو پھر از خود اختیاری تصرف سے نکلنے سے تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔

قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى: (‌وحنث ‌في ‌لا ‌يخرج) من المسجد (إن حمل وأخرج) مختارا (بأمره وبدونه) بأن حمل مكرها (لا) يحنث (ولو راضيا بالخروج) في الأصح

وقال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى: (قوله ‌بأن ‌حمل ‌مكرها) أي ولو كان بحال يقدر على الامتناع ولم يمتنع في الصحيح خانية. [الشامية 11/374-376،ط: مكتبة طارق]

وفي البزازية: لا يضع قدمه في دار فلان قدخلها را كبا او ماشيا حافيا او متنعلا حنث، فان نوی ماشیا و دخلها را کبا لا يحنث كما لو أدخل مكرها ، فإن أدخل مكرها وهو قادر على المنع اختلفوا فيه، والأصح انه لا يحنث وهذه اذا حمل و أدخل ، فان دخل بقدميه  يحنث قولا واحدا ، ولو خرج ثم دخل فيما  أدخل مكرها هل يحنث؟ اختلف المشايخ فيه قال السيد ابو شجاع لايحنث والأصح الحنث [الفتاوى البزارية على هامش الهندية ،317-318/4،ط: رشيديه]

فقط واللہ سبحانہ  و تعالیٰ اعلم
کتبہ: عبد الرحمٰن
دارالافتاء جامعۃ الخلفاء الراشدین کریکس

ماری پور کراچی

۲۸ ذوالقعدہ۱۴۴۶ھ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بخدمت جناب حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب دامت برکاتہم العالیہ

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مزاجِ گرامی! رائے طلبی کی عزت افزائی کا شکریہ ۔

بندہ کے خیال میں  یہ بات درست ہے کہ” دھکے دے کر یا ہاتھ سے پکڑ کر جبراً نکالے جانے کی صورت میں حانث نہ ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ” تاہم ہمارے عرف میں”دھکے دے کر نکالنا” محاورے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جس کی بعض صورتوں  میں اکراہ/  جبر لازم  نہیں۔لہذا بندہ کے خیال میں سائل سے صورت حال کی مزید وضاحت لے لینی چاہیے پھر اگر اکراہ کا تحقق معلوم ہو تو طلاق نہیں ہونی چاہیے۔

اپنی دعاؤں میں یاد رکھنے کی درخواست ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved