• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایک شریک کا مشترکہ کاروبار سے ذاتی دکان کے لئے مال خریدنا

استفتاء

*** اور*** کا گارمنٹس کا مشترکہ  کاروبار ہے۔جس کی نوعیت یہ ہے کہ 75فیصد سرمایہ *** کا ہے اور سارا کام بھی *** کرتا ہے۔احمد کا سرمایہ 25 فیصد ہے اور*** سلیپنگ پارٹنر ہے۔*** نےفی الوقت اپنے کاروبار کے لئے یہ ترتیب رکھی ہے کہ چونکہ کاروبار کا نام اور برانڈ مشہور ہے اس لئے جو بھی چاہے فرنچائز لے لے اور پیسے دے کر مال خرید لے۔*** کے پاس اس کاروبار سے ہٹ کر علیحدہ سے بھی سرمایہ ہے۔وہ چاہتا ہے کہ وہ خود بھی فرنچائز لے اور دکان بنا کر اپنی گارمنٹس کی کمپنی سے مال خرید کر دکان پر بھی بیچے،  اس صوررت میں یہ بھی ممکن ہے کہ بعض دفعہ  گارمنٹس کی کمپنی کو ادائیگیوں کے پیش نظر سستا مال بیچنا مقصود ہوتا ہے  تو *** اپنی دکان کے لئے خود ہی اچھے داموں مال خرید لے۔ایسے مواقع پر چونکہ ریٹ  فکس نہیں ہوتا بیچنے والا اور خریدار آپس میں بارگیننگ سے اپنے فائدہ کو سامنے رکھ کر ریٹ لگاتے ہیں۔تو ممکن ہے کہ *** کے خود ہی خریدار ہونے کی وجہ سے اپنا فائدہ اس میں محسوس کرے کہ دکان کو زیادہ سستے داموں مال بیچ دےتاکہ اسے اس طریقے سے زیادہ فائدہ ہو ،اب سوال یہ ہے کہ :

1-کیا *** کا مشترکہ کاروبار سے فرنچائز لے کر خود مال خریدنا جائز ہے؟

2-جو ممکنہ صورت اوپر لکھی گئی ہے اس صورت میں شرعاً  *** کی کیا ذمہ داری ہو گی؟

تنقیح :  آپس میں نفع کی  ترتیب یوں طے کی ہوئی ہے کہ *** پہلے نفع میں سے 20 فیصد محنت کا  لیتا ہے اس کے بعد جو نفع بچے  وہ سرمایہ کے تناسب سے تقسیم ہوجاتا ہے،اور اس طرح طے کرنے کی وجہ یہی ہے کہ عامل کو کام کرنے کی وجہ سے سلیپنگ پارٹنر کے نفع میں سے بھی   کچھ ملے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-مذکورہ صورت یعنی حامد کا ذاتی فرنچائز لے کر مشترکہ کاروبار سے اس کے لیے مال خریدنا احمد کو بتا کر جائز ہے۔

2- مذکورہ  صورت میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جس ریٹ پر کسی دوسرے فرنچائز ی کو مال دیا جاتا ہے اسی ریٹ پر حامد اپنی فرنچائز کے لیے مال خریدے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں حامد اور احمد کا معاملہ   مضاربت کا بنتا ہے  کیونکہ   مذکورہ صورت میں احمد سلیپنگ پارٹنر ہے   لہذا حامد اپنے سرمایہ میں اصیل ہے اور چونکہ احمد کے سرمایہ میں کام کرنے کی وجہ سے اس کےنفع میں سے بھی  حصہ لیتا ہے اس لیے اس کے سرمایہ میں مضارب ہےلہذا   مذکورہ صورت  میں مشترکہ کاروبار سے اپنے لیے مال خریدنے کی توجیہ یہ ہے گی کہ اس مال میں جتنا حصہ حامد کا پنا بنتا ہے تو  حامد نے وہ لے کر اس کے بقدر سرمایہ  مشترک کھاتے میں  جمع کروا دیا تاکہ اس کا سرمایہ کم نہ ہو اور باقی  حصہ   یعنی  رب المال کا مال اس کی اجازت سے خرید لیا   جو کہ جائز ہے   ، نیز یہاں اگرچہ ہر دفعہ عامل مضارب سے باقاعدہ  معاملہ کر کے نہیں خریدے گا  لیکن چونکہ مضارب کی حیثیت  وکیل کی ہوتی ہے اور  وکیل   کو موکل کا مال  اپنے آپ فروخت کرنے کی ایک  قول کے مطابق گنجائش ہے اس لیے یہ صورت بھی جائز بنتی ہے ۔

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع (6/ 102) میں ہے:

‌لأن ‌جواز ‌شراء ‌رب ‌المال من المضارب، والمضارب من رب المال ثبت معدولا به عن القياس لما ذكرنا أن رب المال اشترى مال نفسه بمال نفسه، والمضارب يبيع مال رب المال من رب المال إذ المالان ماله، والقياس يأبى ذلك، إلا أنا استحسنا الجواز؛ لتعلق حق المضارب بالمال وهو ملك التصرف، فجعل ذلك بيعا في حقهما لا في حق غيرهما، بل جعل في حق غيرهما ملحقا بالعدم

الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (8/454) میں ہے:

‌ولو ‌شرى ‌من ‌رب ‌المال بألف عبدا شراه) رب المال (بنصفه رابح بنصفه) وكذا عكسه لانه وكيله، ومنه علم جواز شراء المالك من المضارب وعكسه

قَوْلُهُ: (وَمِنْهُ عُلِمَ جَوَازُ شِرَاءِ الْمَالِكِ مِنْ الْمُضَارِبِ وَعَكسه) أما شِرَاء الْمَالِك من الْمضَارب مَال الْمُضَاربَة فَإِنَّهُ وَإِن كَانَ مَال الْمَالِك لكنه لَا يملك التَّصَرُّف فِيهِ بعد صَيْرُورَته عرضا، وَصِحَّة العقد تحْتَمل حُصُول الثَّمَرَة وَقد حصلت بِملكه التَّصَرُّف.

وَأما شِرَاء الْمضَارب من رب المَال فَهُوَ صَحِيح، لَان مَا شراه لَا يملك فِيهِ الْعين وَلَا التَّصَرُّف، وَهُوَ وَإِن شراه للْمَالِك لانه وَكيل عَنهُ، لَكِن فِي شِرَائِهِ فَائِدَة وَهُوَ حُصُول الرِّبْح لَهُ. وَفِيه فَائِدَة للْمَالِك أَيْضا لانه رُبمَا يعجز عَن بَيْعه بِنَفسِهِ

بحر الرائق (281/7) میں ہے:

قوله ‌الوكيل ‌بالبيع والشراء لا يعقد مع من ترد شهادته له أي عند أبي حنيفة وقالا: يجوز بيعه منهم بمثل القيمة ………….. وأطلق الوكيل فشمل المضارب……… وأشار المؤلف إلى منع بيعه من نفسه بالأولى قال في البزازية: ‌الوكيل ‌بالبيع لا يملك شراءه لنفسه

الدر مع الشامی (293/8) میں ہے:

لا يعقد وكيل البيع والشراء والاجارة والصرف والسلم ونحوها(مع من ترد شهادته له) للتهمة وجوزاه بمثل القيمة (إلا من عبد ومكاتبه إلا إذا أطلق له الموكل) كبع ممن شئت (فيجوز بيعه لهم بمثل القيمة) اتفاقا (كما يجوز عقده معهم بأكثر من القيمة) اتفاقا: أي بيعه لا شراؤه بأكثر منها اتفاقا، كما لو باع بأقل منها بغبن فاحش لا يجوز اتفاقا، وكذا بيسير عنده خلافا لهما.ابن ملك وغيره. وفي السراج: لو صرح بهم جاز إجماعا ‌إلا ‌من ‌نفسه وطفله وعبده غير المديون

(قوله ‌إلا ‌من ‌نفسه) وفي السراج: لو أمره بالبيع من هؤلاء فإنه يجوز إجماعا إلا أن يبيعه من نفسه أو ولده الصغير أو عبده ولا دين عليه فلا يجوز قطعا وإن صرح به الموكل اهـ منح. الوكيل بالبيع لا يملك شراءه لنفسه؛ لأن الواحد لا يكون مشتريا وبائعا فيبيعه من غيره ثم يشتريه منه، وإن أمره الموكل أن يبيعه من نفسه وأولاده الصغار أو ممن لا تقبل شهادته فباع منهم جاز بزازية كذا في البحر، ولا يخفى ما بينهما من المخالفة، وذكر مثل ما في السراج في النهاية عن المبسوط، ومثل ما في البزازية في الذخيرة عن الطحاوي، وكأن في المسألة قولين خلافا لمن ادعى أنه لا مخالفة بينهما

احسن الفتاویٰ (248/7) میں ہے:

جواب: ايك قول كے مطابق رب المال کی اجازت سے مضارب اپنے نفس سے عقد کرسکتا ہے لہذا دکان کا کرایہ لینا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved