- فتوی نمبر: 7-40
- تاریخ: 24 جولائی 2014
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
میرے والد صاحب فوت ہو چکے ہیں، انہوں نے اپنی زندگی میں ایک عدد مکان خریدا، اس کو 2002ء میں تین افراد کے نام کر دیا (مکان خریدتے ہی ابتداءً بیٹوں کے اور اپنے نام کر دیا تھا، زبانی بھی یہ کہتے رہے کہ یہ میں نے بیٹوں کو دیدیا ہے، اور رجسٹری کی رو سے گویا خریدا ہی تینوں مل کر ہے)، جس میں ایک حصہ بڑے بیٹے، ایک حصہ چھوٹے بیٹے اور ایک حصہ خود اپنے نام رکھا چونکہ زمین کا رقبہ با مطابق رجسٹری نو مرلے تھا اس رجسٹری کے مطابق جو کہ تین افراد کے نام پر ہے، کس طرح وراثت میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ اس کے علاوہ دو لڑکیاں بھی وارث ہیں۔ رجسٹری کی نقول لف کر دی گئی ہے۔
2۔ بنک میں جو رقم تھی وہ کچھ اس طرح تقسیم کی دو بیٹے اور دو بیٹیاں:
6
بیٹی بیٹی بیٹا بیٹا
1 1 2 2
کیا یہ تقسیم صحیح ہے ؟ اوپر والے مسئلے پر برائے مہربانی رہنمائی فرما دیجیے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ اس مکان کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ اس مکان میں سے 3/1 مرحوم کے بیٹے جواد حسن کا اور 3/1 معاذ حسن کا اور باقی 3/1 کو 6 حصوں میں تقسیم کر کے 2+2 حصے ہر بیٹے کو اور 1-1 حصہ ہر بیٹی کو ملے گا۔ صورت تقسیم یہ ہے:
6
بیٹی بیٹی بیٹا بیٹا
1 1 2 2
2۔ بینک میں جو رقم تھی اس کی جو تقسیم آپ لوگوں نے کی ہے وہ درست ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved