- فتوی نمبر: 33-372
- تاریخ: 07 اگست 2025
- عنوانات: عبادات > قسم اور منت کا بیان > نذر و منت کے احکام
استفتاء
جب میں پیسے کمانے کے قابل ہوا تو میں نے ارادہ کیا تھاکہ ہر ماہ اپنی آمدن کا اتنا فیصد حصہ راہ خدا میں خرچ کروں گا اب میں کسی کے ہاں مہمان بن کر جاؤں تو فروٹ لے کر جانے میں یا وہاں کچھ پیسے دینے میں یا اپنے ہاں کوئی مہمان آئے ہوں تو وہاں یہ(1) رقم خرچ کی جاسکتی ہے؟ (2) یہ نذر ہے یا نفلی صدقہ ؟(3) یہ رقم غریب مساکین مسجد مدرسہ میں ہی استعمال کرنی ہو گی؟
وضاحت مطلوب ہے: صرف ارادہ ( نیت) کیا تھا یا زبان سے بھی کچھ الفاظ کہے تھے؟ اگر کہے تھے تو کیا الفاظ تھے؟
جواب وضاحت: ہر مہینے اپنی آمدن کا اتنا فیصد اللہ کی راہ میں خرچ کیا کروں گادل میں ارادہ تو تھا ہی زبان سے بھی بولا تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ رقم کا مصرف مستحق زکوۃ لوگ ہیں اور انہیں یہ رقم مالکانہ بنیاد پر دینا ضروری ہے اباحت کی بنیاد پر دینا یا غیر مستحق زکوۃ کو دینا درست نہیں لہذا مہمان بن کر جانے کی صورت میں جسے یہ رقم یا اس کے فروٹ دینے پڑیں وہ اگر مستحق زکوۃ ہے تو اسے یہ رقم یا اس کے فروٹ خرید کر دینا درست ہے ورنہ درست نہیں۔ اسی طرح اپنے ہاں آئے ہوئے مہمان کو اس رقم سے کھانا وغیرہ بنا کر کھلانا درست نہیں کیونکہ یہ اباحت کی صورت ہے ہاں اگر اسے رقم دی جائے یا اس رقم سے خرید کر کوئی چیز مالکانہ بنیاد پر دی جائے تو درست ہے بشرطیکہ وہ مستحق زکوۃ ہو ورنہ مالکانہ بنیاد پر دینا بھی درست نہیں۔
2۔ یہ نذر نہیں ہے بلکہ نفلی صدقہ ہے لیکن نفلی صدقہ بھی مستحق زکوۃ کو مالکانہ بنیاد پر دینا ضروری ہے ورنہ وہ نفلی صدقہ نہیں رہے گا۔
3۔ یہ رقم غریب، مسکین (مستحق زکوۃ) مسجد، مدرسہ یا کسی اور کار خیر میں ہی استعمال کرنی ہوگی۔
شامی (2/343) میں ہے:
(وفي سبيل الله وهو منقطع الغزاة) وقيل الحاج وقيل طلبة العلم، وفسره في البدائع بجميع القرب وثمرة الاختلاف في نحو الأوقاف.
(قوله: وهو منقطع الغزاة) أي الذين عجزوا عن اللحوق بجيش الإسلام لفقرهم بهلاك النفقة أو الدابة أو غيرهما فتحل لهم الصدقة وإن كانوا كاسبين إذا الكسب يقعدهم عن الجهاد قهستاني (قوله: وقيل الحاج) أي منقطع الحاج. قال في المغرب: الحاج بمعنى الحجاج كالسامر بمعنى السمار في قوله تعالى {سامرا تهجرون} [المؤمنون: 67] وهذا قول محمد والأول قول أبي يوسف اختاره المصنف تبعا للكنز. قال في النهر: وفي غاية البيان أنه الأظهر وفي الإسبيجابي أنه الصحيح (قوله: وقيل طلبة العلم) كذا في الظهيرية والمرغيناني واستبعده السروجي بأن الآية نزلت وليس هناك قوم يقال لهم طلبة علم قال في الشرنبلالية: واستبعاده بعيد؛ لأن طلب العلم ليس إلا استفادة الأحكام وهل يبلغ طالب رتبة من لازم صحبة النبي – صلى الله عليه وسلم – لتلقي الأحكام عنه كأصحاب الصفة، فالتفسير بطالب العلم وجيه خصوصا وقد قال في البدائع في سبيل الله جميع القرب فيدخل فيه كل من سعى في طاعة الله وسبيل الخيرات إذا كان محتاجا. اهـ. (قوله: وثمرة الاختلاف إلخ) يشير إلى أن هذا الاختلاف إنما هو تفسير المراد بالآية في الحكم، ولذا قال في النهر والخلاف لفظي للاتفاق، على أن الأصناف كلهم سوى العامل يعطون بشرط الفقر فمنقطع الحاج أي وكذا من ذكر بعده يعطى اتفاقا وعن هذا قال في السراج وغيره: فائدة الخلاف تظهر في الوصية يعني ونحوها كالأوقاف والنذور على ما مر اهـ أي تظهر فيما لو قال الموصي ونحوه في سبيل الله، وفي البحر عن النهاية، فإن قلت: منقطع الغزاة أو الحج إن لم يكن في وطنه مال فهو فقير وإلا فهو ابن السبيل فكيف تكون الأقسام سبعة قلت: هو فقير إلا أنه زاد عليه بالانقطاع في عبادة الله تعالى فكان مغايرا للفقير المطلق الخالي عن هذا القيد.
ہندیہ (6/96) میں ہے:
ولو قال: فرسي وسلاحي في سبيل الله تعالى، فهذا على التمليك يملك رجلا واحدا فقيرا، وكذلك لو قال: ثلث مالي في غزو أو قال: في سبيل الله تعالى، أو قال: في السبيل فهذا على تمليك الفقراء.
الفقہ الاسلامی وادلتہ (10/7498) میں ہے:
الوصية لله تعالى ولأعمال البر بدون تعيين جهة، تصرف في وجوه الخير.
فتاوی تاتارخانیہ(19/392) میں ہے:
وإذا اوصى بثلث ماله لله تعالى فالوصية باطلة في قول أبي حنيفة رحمه الله وفي قول محمد رحمه الله الوصية جائزة، وتصرف إلى وجوه البر وبقول محمد يفتى، وتصرف إلى الفقراء، وعن أبي يوسف رحمه الله أنه قال: هو ليس بشيء وهو للورثة فإن نفسه وماله لله تعالى.
فتاوی دارالعلوم دیوبند (6/186) میں ہے :
سوال: آیت کریمہ إنما الصدقات للفقراء الآية میں وفي سبيل الله میں کون کون سے مصارف داخل ہیں عملہ وانجمن ہائے تبلیغ وحفاظت اسلام کی تنخواہ اور مصارف خوراک وسفر وغیرہ اس میں داخل ہیں یا نہیں ؟
الجواب: درمختار میں ہے: وفي سبيل الله وهو منقطع الغزاة وقيل الحاج وقيل طلبة العلم فسره في البدايع بجميع القرب الخ غرض یہ ہے کہ فی سبیل اللہ میں بےشک موافق تفسیر صاحب بدایع کے حملہ مصارف خیر داخل ہیں لیکن جو شرائط ادائے زکوۃ کی ہے وہ سب جگہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے, وہ یہ ہے کہ بلا معاوضہ تملیک محتاج کی ہونی ضروری ہے اس لیے حیلہ تمليك اول کرلینا چاہیے تاکہ تملیک کے بعد تبلیغ وغیرہ کے ملازمین کی تنخواہ وغیرہ میں صرف کرنا اس کا درست ہوجائے ۔
معارف القرآن(4/407) میں ہے:
لفظ فی سبیل اللہ کے لفظی معنی بہت عام ہیں جو کام اللہ کی رضا جوئی کے لئے کئے جائیں وہ سب اس عام مفہوم کے اعتبار سے فی سبیل اللہ میں داخل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved