• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اپنی والدہ سے بوقت ضرورت پیسے مانگنا

استفتاء

میری والدہ محترمہ کی ایک جائداد ہے جو کہ ان کو ان کے والد نے ہدیہ(تحفے)کے طور پر دی تھی،میری والدہ کو اس جائداد سے اچھی خاصی کرایہ کی آمدن آتی ہے،اور ان کے دوبیٹے ہیں،میری والدہ اس کرایہ میں سے ہم دو بیٹوں کو بھی خرچہ کے لئے مناسب پیسے دیتی ہے تاکہ ہمارے بیوی بچوں کا بھی خرچ ہو سکے ۔

اس سلسلےمیں میراپہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ خرچہ جو وہ ہمیں دیتی ہے ہدیہ کا حکم رکھتا ہے؟

دوسری بات یہ ہےکہ میری والدہ نے مجھے کہا ہوا ہے کہ جب تمہیں ضرور ت کے لئے پیسے چاہیے ہوں تومجھ سے مانگ لیا کرو ،اور میں بوقت ضرورت ان سےپیسے مانگتا رہتا ہوں ۔

اس سلسلےمیں میرادوسرا سوال یہ ہے کہ کیا میرا ان سے اس طرح مانگنا جائز ہے ؟

مجھےاشکال یہ ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے جس کامفہوم یہ ہے کہ "جب تجھ کو کچھ مانگنا ہو تو اللہ تعالی سےمانگ (ترمذی شریف) توکیامیرا اپنی والدہ سے بوقت ضرورت پیسے مانگنا مذکورہ بالا حدیث کے خلاف تو نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1ـآپ اس بارے میں اپنی والدہ سے پوچھ لیں کہ وہ کس نیت سے دیتی ہیں اگر وہ ہدیہ کی نیت سے دیتی ہیں تو یہ ہدیہ شمار ہوگا اور اگر کسی اور نیت سے دیتی ہیں تو وہ پوچھ کر ہمیں بتائیں پھراس کا جواب دیں گے۔

2-بوقت ضرورت والدین سے پیسے مانگنا جائز ہے۔اورضرورت کے وقت اپنے قریبی رشتہ دار یا دوست سے مانگنا مذکورہ حدیث کے خلاف نہیں ۔

شامی(8/408)میں ہے:

 ( وركنها ) هو ( الإيجاب والقبول )( قوله : هو الإيجاب ) وفي خزانة الفتاوى : إذا دفع لابنه

 مالا فتصرف فيه الابن يكون للأب إلا إذا دلت دلالة التمليك بيري .قلت : فقد أفاد أن التلفظ بالإيجاب والقبول لا يشترط ، بل تكفي القرائن الدالة على التمليك.

فتح الباری(10/ 408)میں ہے:

قوله صلى الله عليه و سلم لابن عباس إذا سألت فاسأل الله وفي سنن أبي داود إن كنت لا بد سائلا فاسأل الصالحين وقد اختلف العلماء في ذلك والمعروف عند الشافعية أنه جائز لأنه طلب مباح فأشبه العارية وحملوا الأحاديث الواردة على من سأل من الزكاة الواجبة ممن ليس من أهلها لكن قال النووي في شرح مسلم اتفق العلماء على النهي عن السؤال من غير ضرورة…وقال الفاكهاني يتعجب ممن قال بكراهة السؤال مطلقا مع وجود السؤال في عصر النبي صلى الله عليه و سلم ثم السلف الصالح من غير نكير فالشارع لا يقر على مكروه.

شرح سنن ابن ماجہ لامام سیوطیؒ (132)میں ہے:

كراهيةالمسئلة وهي على ثلاثة أوجه حرام ومكروه ومباح فالحرام من سأل وهو غني من زكاة أو أظهر من الفقر فوق ما هو به والمكروه لمن سأل وعنده ما يئمن عن ذلك ولم يظهر من الفقر فوق ما هو به والمباح لمن سأل بالمعروف قريبا أو صديقا وأما السوال عند الضرورة فواجب لاحياء النفس…وأما الاخذ من غير مسألة ولا اشراف نفس فلا بأس به انتهى.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved