• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اشہر حج میں عمرہ کرنا ، اور مکی کے لیے حج تمتع

  • فتوی نمبر: 5-302
  • تاریخ: 27 فروری 2013

استفتاء

ایک آدمی رمضان کے مہینہ میں عمرہ کے لیے گیا اور اشہر حج میں شوال کا مہینہ آگیا اس کا وہاں رہنے کا ارادہ نہیں واپسی کا ارادہ ہے تو کیا واپسی پر عمرہ کرسکتا ہے۔ اس پر کوئی دم وغیرہ تو نہیں پڑے گا۔ لیکن اگر اس کا حج کا پروگرام بن گیا اور یہ ہے بھی اب مکہ والوں کے حکم میں اس صورت میں اگر عمرہ کرے تو پھر کیا حکم ہے؟ دم آئے گا کہ نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ایسا شخص واپسی پر اشہر حج میں عمرہ کرسکتا ہے اور عمرہ کرنے کی وجہ سے دم لازم نہ ہوگا۔ اگر اس شخص کا حج کرنے کا ارادہ ہوگیا تو صرف حج ہی کرے عمرہ نہ کرے۔ اگر عمرہ کرکے حج بھی کرے گا تو اس پر ایک دم دینا لازم ہوگا۔

و أفادوا بالاقتصار على الخمسة أنها لا تكره في أشهر الحج و هو الصحيح و لا فرق في ذلك بين المكي و الآفاقي ( بحر و شرنبلالية) و إنما كرهه فعلها … فيكونون متمتعين و هم عن التمتع ممنوعون و إلا فلا منع للمكي عن المفردة في أشهر الحج و إذا لم يحج في تلك السنة و من خالف فعليه البيان. ( غنية الناسك: 199)

پس اہل مکہ اور جو اہل مکہ کے حکم میں ہیں ان کو صرف مفرد حج کرنا چاہیے، ان میں سے جو شخص حج تمتع کرے گا وہ جائز تو ہوجائے گا مگر آیت مذکورہ کی مخالفت کی وجہ سے گناہگار ہوگا اور طریقہ مسنونہ کے ترک کی وجہ سے برائی کا مرتکب ہوگا اور اس پر دم اساءت یعنی دم جبر واجب ہوگا۔ (عمدة الفقہ: 4/ 277) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved