• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

’’اوریو اوریجنل‘‘ بسکٹ کھانے کا حکم

استفتاء

بازار میں ’’اوریو اوریجنل‘‘ (OREO Original)کے نام سے ایک بسکٹ دستیاب ہے،کیا یہ بسکٹ کھا سکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پاکستانی کمپنی’’ کانٹی نینٹل بسکٹ لو‘‘(Continental biscuit LU) کے بنائے ہوئے’’اوریو اوریجنل‘‘نام كے بسکٹ کے پیکٹ پرجو اجزائے ترکیبی درج ہیں ان میں سے کسی جز کے حرام ہونے پر کوئی قابل اعتبار دلیل نہیں لہذا جب تک مذکورہ بسکٹ میں کسی حرام جز کے شامل ہونے کی کوئی قابل اعتبار دلیل سامنے نہیں آتی اس وقت تک اس بسکٹ کے کھانے کی گنجائش ہے۔

توجیہ:مذکورہ’’اوریو اوریجنل‘‘ بسکٹ کے پیکٹ پر13 اجزاء ترکیبی مذکورہیں جن میں سے9نباتاتی،1 معدنی،1حیوانی اور2 مصنوعی ہیں۔ان اجزاء کی تفصیل اور ان كا حکم درج ذیل ہے:

نباتاتی اجزاء:

1۔چینی،2۔گندم،3۔گندم کاآٹا،4۔ہائڈرو جینٹڈاور غیر ہائڈرو جینٹڈویجیٹیبل فیٹ (ہائڈروجن گیس پر مشتمل اور غیر مشتمل پام سے حاصل شدہ نباتاتی تیل)،5۔کوکو پاؤڈر(چاکلیٹ کے پودےسے حاصل ہونے والا پاؤڈر)

6۔کارن اسٹارچ (مکئی کا نشاستہ/کلف) 7۔مائع گلوکوز(نشاستہ دارنباتات سےحاصل شدہ شوگر) 8۔سویا،9۔سویا لیسیتھن۔

نباتاتی اجزاء کا حکم یہ ہے کہ ان میں سے نشہ آوریامضر اجزاء کے علاوہ سب پاک اور حلال ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق مذکورہ اجزاء میں سے کوئی بھی جزء نشہ آور اور مضر نہیں ہے لہذایہ سب اجزاء حلال اور پاک ہیں۔

معدنی اجزاء:

10۔نمك۔ معدنی اجزاء کا حکم بھی نباتات والا ہے کہ نشہ آور یا مضر اجزاءکے علاوہ سب حلال  اور پاک ہیں ،لہذا نمک بھی حلال اور پاک ہے۔

حیوانی اجزاء:

11۔دودھ۔اس کا حکم یہ ہے کہ جس جانور کا گوشت حلال ہے اس کا دودھ بھی حلال ہے ،اورجس جانور کا گوشت حلال نہیں اس کا دودھ بھی حلال نہیں، مذکورہ دودھ کے بارے میں اگر چہ یہ معلوم نہیں کہ یہ حلال جانور کا ہے یا حرام جانور کا ، اور چونکہ جانوروں یا ان کے اجزاء میں اصل حرمت ہے اس لیئے اصولی طور پر تو جب تک اس کے حلال ہونے کا علم نہ ہو اس وقت تک اسے حلال نہیں کہا جا سکتا لیکن چونکہ بازار میں عام طور پر حلال جانوروں(گائے،بھینس،بکری وغیرہ) کا دودھ ہی دستیاب ہوتا ہے حرام جانوروں کا دودھ عموماً دستیاب نہیں ہوتا نیز چونکہ مذکورہ صورت حال اسلامی ملک کی ہےاس لیےجب تک اس دودھ کے کسی حرام جانور سے حا صل ہونے کا علم یا غالب گمان نہ ہو اس وقت تک اس جزء کو بھی حلال کہا جائے گا ۔

مصنوعی اجزاء:

12۔سوڈیم اور امونیم بائی کاربونیٹ(یہ مختلف گیسز اور کیمیکلز کو باہم ملا کر بنایا جاتا ہے)

13۔مصنوعی فلیور(وینیلن)۔

مصنوعی اجزاء بھی در حقیقت مذکورہ بالا تین اجزاء(نباتاتی،معدنی اور حیوانی) میں سےکسی ایک سے یا  ایک سے زائد سے ہی تیارہوتے ہیں ان سے ہٹ کرکسی اور چیز سے تیار نہیں ہوتے ، اس لیئے مصنوعی اجزاءکا اصل حکم تو اسی وقت معلوم ہو سکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ ان کو کن اشیاء سے تیار کیا گیا ہے اور پھر اس بسکٹ میں ان میں سے کون سا مصنوعی فلیور استعمال کیا گیا ہے۔ مذکورہ صورت میں  چونکہ ان اجزاء کےکسی حیوان یا دیگر حرام اشیاء سے تیار ہونے کا علم یا غالب گمان نہیں اس لیئے جب تک ان مصنوعی اجزاء کے کسی حرام جانور یا کسی حرام شے سے حاصل ہونے کا علم یا غالب گمان نہ ہو اس وقت تک ان مصنوعی اجزاء کو بھی حلال کہا جائے گا،لہذا جب تک ’’اوریو اوریجنل‘‘ بسکٹ میں کسی حرام جزء کے شامل ہونے کا علم یا غالب گمان نہ ہو اس وقت تک اسے حلال کہا جائے گا۔ واضح رہے کہ مصنوعی جزء کے ماخذ  حیوان ہونے کا احتمال شبہۃ الشبہہ کا درجہ رکھتا ہے ا س لیے اس کا اعتبار نہ ہوگا۔

نوٹ:ہمارے اس فتوے کا تعلق صرف صارف) (Consumerکے ساتھ ہے کیونکہ ایک مفتی اور عام صارف کو کسی مصنوع(Product)کے ان اجزائے ترکیبی تک ہی رسائی ہو سکتی ہے جو پیکٹ پر درج ہوں اور وہ ان اجزاء کو ہی سامنے رکھ کر اپنے لیئے یا دوسرے کیلئےحلال یا حرام کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

جبکہ   صانع(Manufacturer)کو اصل حقیقت کا علم ہوتا ہے اس لیئے صانع(Manufacturer) نے اگر اپنی کسی مصنوع(Product)میں کوئی حرام جز شامل کیا ہو اور اسے کسی بھی مصلحت سے اجزائے ترکیبی میں ذکر نہ کیا ہو تو صانع (Manufacturer) کا یہ فعل بہر حال حرام ہوگا اور چونکہ ہمارے پاس ایسے وسائل نہیں کہ ہم اس کی تحقیق کر سکیں کہ کسی مصنوع میں واقعتاً کوئی حرام جز شامل تو نہیں ،اس لیئے ہمارے اس فتوے کی صانع  (Manufacturer)  کے لیئے سرٹیفکیٹ کی حیثیت نہیں ہے۔

نیز ہمارا یہ فتوی موجودہ پیکٹ پر درج اجزائے ترکیبی کے بارے میں ہے لہذا اگر کمپنی آئندہ اجزائے ترکیبی میں کوئی تبدیلی کر ےتو ہمارا یہ فتوی اس کو شامل نہ ہوگا۔

إحياء علوم الدين(2/ 92)میں ہے:

«أما المعادن فهي أجزاء الأرض وجميع ما يخرج منها فلا يحرم أكله إلا من حيث أنه يضر بالآكل….. وأما النبات فلا يحرم منه إلا ما يزيل العقل أو يزيل الحياة أو الصحة»

رد المحتار (10/45)میں ہے:

«وفي الخانية وغيرها: ‌لبن ‌المأكول حلال»

صحیح بخاری (رقم:5507) میں ہے:

عن ‌عائشة رضي الله عنها: «أن قوما قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: إن قوما ‌يأتوننا ‌باللحم لا ندري أذكر اسم الله عليه أم لا، فقال: سموا عليه أنتم وكلوه» قالت: وكانوا حديثي عهد بالكفر

فتح الباری  (9/ 635) میں ہے:

«ويستفاد منه أن كل ما يوجد في ‌أسواق ‌المسلمين محمول على الصحة وكذا ما ذبحه أعراب المسلمين لأن الغالب أنهم عرفوا التسمية»

تبیین الحقائق(6/219) میں ہے:

’’ألا ترى أن ‌أسواق ‌المسلمين لا تخلو عن المحرم من مسروق ومغصوب، ومع ذلك يباح التناول اعتمادا على الظاهر‘‘

 

بہشتی زیور (ص:604) میں ہے:

’’نباتات سب پاک اور حلال ہیں الا آنکہ مضر یا مسکر ہو۔‘‘

بہشتی زیور (ص:600) میں ہے:

’’جمادات سب پاک اور حلال ہیں الا آنکہ مضر یا نشہ لانے والا ہو۔‘‘

بہشتی زیور (ص:606) میں ہے:

’’جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے ان کا دودھ بھی حرام اور نجس ہے اور حلال جانور کا دودھ حلال اور پاک ہے۔‘‘

امداد الفتاوی(96/4)میں ہے:

’’سوال (۲۳۷۴) : جب سے پتہ لگا ہے کہ بعض ولایتی رنگوں میں اسپرٹ کا شبہ ہے اسی وقت سے جب بھی کپڑا پہنتا ہوں تو طبیعت میں شک رہتا ہے کہ یہ کہیں ناپاک نہ ہو، حضرت اقدس ارشاد فرماویں کہ ولایتی رنگ دار کپڑوں مثلاً رنگین گرم کپڑے، رنگین دھاری دار سرد کپڑے، عورتوں کے لئے پختہ رنگ کی رنگین چھینٹیں وغیرہ بلا دھوئے پہننے اور پہن کر نماز پڑھنے میں حرج تو نہیں ہے؟

(۲)  حضرت والا یہ بھی ارشاد فرماویں کہ عورتوں کے لئے ولایتی رنگوں سے دوپٹہ وغیرہ رنگ کر پہننے کا کیا حکم ہے؟

الجواب: اول تو خود ان رنگوں میں جزونجس شامل ہونے میں شبہ پھر ان کپڑوں میں ان رنگوں کے شامل ہونے میں شبہ تو کپڑوں کے نجس ہونے کا شبہۃ الشبہہ ہوگیا؛ اس لئے فتوے سے گنجائش ہے باقی اگر کوئی ورع اختیار کرلے اولیٰ واحسن ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved