- فتوی نمبر: 12-235
- تاریخ: 06 جولائی 2018
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1۔ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں عورتوں کی دینی تعلیم کے لیے کوئی مدرسہ نہیں ہے۔ ہمارے امام صاحب کی اہلیہ عالمہ ہیں ، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک دینی مدرسہ کے نام سے مدرسہ شروع کر لیں ۔ فی الحال کوئی جگہ مسجد کے علاوہ نہیں ہے، جس میں تعلیم شروع کروائی جائے۔ کیا ہم جب تک کوئی علیحدہ جگہ کا متبادل انتظام نہ ہو تب تک مسجد میں صبح تقریباً نو،دس بجے سے لے کر ظہر کی نماز سے پہلے تک تعلیم شروع کروا سکتے ہیں ؟ یاد رہے کہ اس وقت میں مردوں کا مسجد کی طرف آنا جانا نہیں ہوتا۔ اور کیا عورتیں دینی تعلیم کے لیے گھروں سے نکل سکتی ہیں ؟
2۔ اور کیا عورتیں نماز عید اور نماز تسبیح کے لیے مسجد میں آسکتی ہیں ؟
3۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسجد کے ساتھ ہی متصل مدرسہ کا انعقاد کیا جائے ۔ کیا اس جگہ میں عورتیں عید وغیرہ کی نماز کے لیے آسکتی ہیں ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ بنیادی ضروری تعلیم کے لیے عورتیں گھروں سے نکل سکتی ہیں البتہ پردے کا اہتمام ضروری ہے۔ نیز عورتوں کی دینی تعلیم کے لیے مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ کا انتظام کیا جائے کیونکہ عورتوں کے لیے ماہواری کے دنوں میں مسجد میں آنا جائز نہیں ، اور جب باقاعدہ مسجد میں انتظام ہو گا تو اس کا اہتمام مشکل ہو گا کہ ماہواری والی عورت مسجد میں نہ آئے۔
2,3۔ عورتوں کا مسجد و مدرسہ میں آکر عید کی نماز اور نماز تسبیح پڑھنا مکروہ ہے۔ لہذا وہ گھروں میں ہی نماز ادا کریں یہ ان کے لیے افضل ہے۔
معجم کبیر طبرانی میں ہے:
عن ابي عمر الشيباني انه راي ابن مسعود رضي الله عنه يخرج النساء من المسجد يوم الجمعة و يقول اخرجن اليٰ بيتکن خيرلکن۔ (رقم الحديث: 9475)
فتاویٰ شامی (33/2) میں ہے:
و في البحر هي افضل الا للمرأة (قبيل باب الجمعة)
و قال الشامي: فدل علي ان الجمعة عزيمة و هي افضل الا للمرأة لان صلاتها في بيتها افضل۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنه انه کان لا يخرج نسائه في العيدين۔ (رقم:574)
فتاویٰ شامی میں ہے:
و يکره حضورهن الجماعة و لو لجمعة و عيد و وعظ مطلقاً۔ (267/2)
© Copyright 2024, All Rights Reserved