• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عورتوں کے احرام ميں چہرے پرنقاب کے متعلق سوال

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

رفیق حج میں مفتی رفیع عثمانی صاحب نےدرج ذیل بات فرمائی ہے:

’’عورتوں کا احرام بھی مردوں کی طرح ہے ،فرق یہ ہے کہ عورتوں کو سلے ہوئے کپڑے پہنے رہنا چاہیے،سرکوبھی چھپانا چاہیے،صرف چہرہ کھلارکھیں،نقاب اس طرح ڈالنا کہ وہ چہرے کو لگے جائز نہیں،مگر اجنبی مردوں کے سامنے برقع کی نقاب اس طرح ڈال لیں کہ وہ چہرے کو نہ لگے۔ہجوم کے موقع پر اس طرح نقاب ڈالنےسےگرجانے یا کسی حادثے کا خطرہ ہو تو نقاب نہ ڈالیں عورتوں کے لیے موزے ،دستانےاور ہر قسم کے جوتے پہننا جائز ہے ،زیور بھی پہن سکتی ہیں‘‘۔

اس عبارت میں جو انہوں نے فرمایا ہے کہ’’ ہجوم کے موقع پر اس طرح نقاب ڈالنےسے،گرجانے یا کسی حادثے کا خطرہ ہو تو نقاب نہ ڈالیں‘‘اس پر حج کے دنوں میں عمل کیا جاسکتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو عورتیں بہت بوڑھی ہوں یعنی ’’والقواعد من النساء اللتي لايرجون نکاحا‘‘ کی حد میں داخل ہو چکی ہوں وہ ہجوم کے موقعہ پر مذکورہ مسئلے پر عمل کرسکتی ہیں ،کیونکہ ان کانقاب نہ کرنا عام طور سے کسی فتنے کا باعث نہیں۔

اور جو عورتیں جوان ہوں یا جوان کے حکم میں ہوں یعنی ان کا نقاب نہ کرنا عام طور سے فتنے کاباعث بن سکتا ہو وہ ایسے مواقع پر نقاب تو نہ ہٹائیں البتہ وہ ایسا نقاب استعمال کریں جس میں راستہ سہولت سے نظر آجائے یا وقتی طور پر بقدر ضرورت نقاب ہٹائیں پورانقاب نہ ہٹائیں لہذا ہمارے خیال میں ایک عوامی کتاب میں اس مسئلے کو علی الاطلاق (بغیر تفصیل کے)ذکرکرنا مناسب نہیں کیونکہ عورتیں اس کو پردہ نہ کرنے کابہانہ بناسکتی ہیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved