• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

“اذان اور اقامت کے مابین دعا رد نہیں ہوتی ” اس حدیث میں مابین سے کیا مراد ہے؟

استفتاء

اذان اور اقامت کے مابین کتنا وقت ہوتا ہے  کہ دعا مکمل کر لی جائے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ  آپ کا سوال واضح نہیں ہے؟

جواب وضاحت : میرا سوال اس حدیث سے متعلق ہے  جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اذان اور اقامت کے مابین دعا رد نہیں کی جاتی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ حدیث کے تین مطلب ہیں (1) اذان کی ابتداء سے اذان کی انتہا ء تک اور اسی طرح اقامت کی ابتداء  سے اقامت کی انتہاء تک یعنی اذان اور اقامت کے دوران کی گئی دعا رد نہیں ہوتی۔(2) اذان اور اقامت کے درمیانی وقت میں کی گئی دعا رد نہیں ہوتی خواہ درمیانی وقت کم ہو یا زیادہ۔(3)اذان کے فوراً بعد کی گئی دعا رد نہیں ہوتی۔

لمعات التنقيح فی شرح مشكاة المصابيح  (2/ 431)میں ہے:

 (أنس) قوله: (لا يرد الدعاء ‌بين ‌الأذان ‌والإقامة) سواء كان متصلًا بالأذان أو متراخيًا، والأولى أن يدعى متصلًا ليوافق كونه عند النداء كما في الحديث الآتي.

بذل المجہود فی حل سنن أبی داود (3/ 327) میں ہے:

 (عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله  صلى الله عليه وسلم: لا يرد الدعاء ‌بين  ‌الأذان ‌والإقامة) يحتمل أن يكون المعنى أن الدعاء لا يرد بين أثناء الأذان من حين ابتدائه إلى حين انتهائه، وكذا الإقامة، ويحتمل أن يكون المعنى أن الدعاء لا يرد بين الوقت الذي من ابتداء الأذان إلى انتهاء الإقامة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved