- فتوی نمبر: 7-48
- تاریخ: 03 ستمبر 2014
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
ایک شخص نے اپنی تقریباً 41 کنال 15 مرلے زمین اپنی زندگی میں اپنے چار موجود بیٹوں میں اس طرح تقسیم کی کہ کل زمین کے اندازے سے پانچ برابر حصے کیے اور چار حصے اپنے چار بیٹوں کو دے دیے، اور پانچواں حصہ اپنی ملکیت میں رکھا، اس تقسیم کے وقت اس شخص کی پانچ بیٹیاں بھی موجود تھیں، لیکن نہ تو انہیں زمین میں سے کچھ حصہ دیا گیا اور نہ ان کو تقسیم کی باضابطہ اطلاع دی گئی، نیز اس وقت بیٹیوں کی طرف سے بھی کسی قسم کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔
نوٹ: مذکورہ بالا تقسیم میں حصے اندازے سے کیے گئے اور چناؤ بذریعہ قرعہ اندازی۔ چند سالوں بعد مذکورہ شخص کا انتقال ہو گیا، اب چند سوالات جواب طلب ہیں:
1۔ کیا اس شخص نے زندگی میں جو طریقہ تقسیم اختیار کیا تھا یہ درست تھا یا غلط؟ اگر غلط تھا تو اب وفات کے بعد اس غلطی کے ازالے کی ممکنہ صورت کیا ہو سکتی ہے؟
کیا موہوبہ زمین بھی وراثت میں شمار ہو گی
2۔ اب اس شخص کا ترکہ اس کی کل زمین 41 کنال 15 مرلے شمار ہو گی یا صرف وہ حصہ جو اس نے تقسیم کے بعد اپنی ملکیت میں رکھا تھا؟
بیٹیوں کا بٹیوں کو ہبہ کی ہوئی زمین سے میں اپنے حصے کا مطالبہ
3۔ اب اگر اس شخص کی بیٹیاں اپنے بھائیوں سے اپنے حصوں کا مطالبہ کریں تو کیا یہ درست ہے؟
بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں
4۔اس شخص کے پسماندگان میں بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں، بہن بھائی وغیرہ باپ دادا یہ سب وفات پا چکے ہیں۔ اب مسئلہ کیسے بنے گا؟ عملی طور پر وضاحت فرما دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
4-1۔ مذکورہ صورت میں والد نے اپنی زندگی میں جو جائیداد بیٹوں کو ہبہ کی ہے وہ بیٹوں کی ہے اور والد کی مذکورہ طریقے سے تقسیم اگرچہ انصاف کے تقاضے کے خلاف ہے، لیکن معتبر ہے، چنانچہ اس میں میراث جاری نہ ہو گی اور بہنیں ان سے اس کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتیں، البتہ بھائی اگر چاہیں تو باہمی رضا مندی سے مناسب حصے مقرر کر کے دے سکتے ہیں، نیز جو حصہ وفات کے وقت والد کی ملکیت تھا اس میں میراث جاری ہو گی، تقسیم کا طریقہ کار یہ ہو گا کہ والد کی متروکہ جائیداد کو 104 حصوں میں تقسیم کر کے 13 حصے بیوہ کو، 7-7 حصے ہر بیٹی کو اور 14-14 حصے ہر بیٹے کو ملیں گے۔ تقسیم کی صورت یہ ہے:
8×13= 104
بیوہ 4 بیٹے 5 بیٹیاں
8/1 عصبہ
1×13 7×13
13 91
13 14+14+14+14 7+7+7+7+7
و لو نحل بعضاً و حرم بعضاً جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلاً. (بدائع: 5/ 181)
و أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض. (بدائع: 5/ 182)
© Copyright 2024, All Rights Reserved