• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بد عمل شوہر سے طلاق کا مطالبہ

استفتاء

شادی کی پہلی رات میرے شوہر   زید نے مجھے کہا   کہ “تم مجھے پسند نہیں ہو” میں نے تمہاری  ماما اور اپنی ماما کی وجہ سے  تم سے شادی کی ہے۔ اس کے بعد مجھے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ تم باہر دوسرے لڑکوں سےملتی تھی میں نے بہت منع کیا ، یقین دلوایا لیکن یقین نہ آیا ۔ اس کے علاوہ  زید  کا رویہ میرے ساتھ ٹھیک نہیں تھا ہر وقت غصہ میں رہتے تھے میرے ساتھ بات نہیں کرتے تھے سب کے سامنے بولتے  لیکن کمرے میں نہیں بولتے تھے۔  پہلے کسی  سے محبت کرتے تھے اس کی باتیں میرے ساتھ کرتے تھے اور مجھے کہتے تم اس طرح کی نہیں ہو  وہ اچھی تھی ۔ اور مجھے حرام کام کرنے کا کہتے میں نے منع کیا لیکن زبرستی کرتے، کبھی نفس کو منہ میں ڈالنے کی خواہش اور کبھی پاخانہ کی جگہ ڈالنے کی خواہش کرتے تھے۔ پاخانہ کی جگہ ایک بار کیا میں روئی اور منع کر دیا  لیکن منہ میں بار بار کرنے کو کہتے اور منہ میں ہی فارغ ہوتے خاص طور پر حیض کے دنوں میں اور شک بہت کرتے یہاں تک کہ اپنے ہی چھوٹے بھائی سے مذاق کرنے پر بولتے تھے وہ تقریبا 12سال کا ہوگا، اتنا شک کرتے اور امی کی طرف آنے پر راضی نہ ہوتے۔

میرے والد کو بہت غلط کہتے تھے ایک بار والد نے میری پریشانی پوچھی میں نے بتائی کیونکہ ان دنوں میں بہت بیمار تھی یہ غصہ ہو کر چلے گئے والد نے پوچھا تو والد کو بتایا کہ ضرورت کے وقت میرا ساتھ نہیں دیتی  اس بات پر  زید  نے والد کو بہت گالیاں بھی دیں اور بہت غلط کہا،   زید  میرے خاندان کو بہت غلط کہتے تھے اُن کا کہنا تھا یہ مولویوں کا خاندان ہے، مولوی گندے ہوتے ہیں، ٹھرکی ہوتے ہیں۔ علماء کرام کو بھی غلط کہتے تھے سمجھانے پر نہیں سمجھتے تھے قسم کھانا اُن کے لیےعام بات تھی، قسم کا کفارہ ادا نہیں کرتے تھے۔ رمضان میں تین چار روزے توڑے اس کا کفارہ بھی ادا نہیں کیا ، شادی کو آٹھ ماہ ہوگئے لیکن پھر بھی میرے منہ پر کہتے مجھے تم پر اعتبار نہیں ہے۔

شادی سے پہلے میں نے اپنی انہیں ساری  باتیں بتائیں انہی باتوں کا نو  مہینے ذکر کرتے رہے اور اسی  وجہ سے شک کرتے ۔عید الاضحیٰ کی چاند رات کو میں   ناراض ہو کر آگئی لیکن پانچ دن بعد چلی گئی۔ زید  نے میرے سے معافی مانگی تھی اور کہا دوبارہ شک نہیں کروں گا۔لیکن حرام کام سے باز نہ آئے نہ کوئی نماز پڑھتے گھر والے بھی نماز نہیں پڑھتے تھے وہاں دین کا کوئی ماحول نہیں۔  زید  کا خاندان بہت گندا ہے وہاں زنا اور شراب پینا عام بات ہے اور نماز سارا خاندان نہیں پڑھتا۔ محرم میں منتیں ماننا،  کالے کپڑے پہننا، سبیلوں کی چیزیں کھانا اور نوحے سننا عام ہے ۔ امام بارگاہ جانا وہاں سے چیزیں لا کر منت ماننا بھی۔ میں اس ماحول سے بہت تنگ آگئی ہوں میرا دل جانے کے بعد سے مطمئن نہیں تھا بہت مشکل سے وہاں رکی ہوئی  تھی،  بار بار روتی تھی اللہ سے مانگتی تھی لیکن اب میں وہاں نہیں جانا چاہتی ہوں۔علماء  کرام شرعی نقطہ نظر سے میری رہنمائی فرمائیں ۔

میں  زینب بنت خالد یہ وضاحت طلب کرنا چاہتی ہوں کہ کیا ایسا شوہر جو  مذکورہ قبیح عادتوں کا حامل ہے کیا  شریعت ایسے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کی اجازت دیتی ہے؟ جبکہ لواطت کا عمل مجھ سے یعنی اپنی اہلیہ سے کرتا ہو اور رمضان المبارک کے روزوں کو رکھنے کے باوجود جبراً  تڑوادیتا ہو اور بیہودہ  فحش فلمیں دیکھتا ہو اور ساتھ دکھلاتا ہو اور ساتھ یہ بھی کہتا ہو کہ  دوسرے لوگ بھی یہ کام کر رہے ہیں تجھے  کرنے میں کیا تکلیف ہے؟ اور توبہ کرنے کے باوجود پھر بھی یہ کام کرنے پر اصرار کرے۔کیا شریعت اسلامیہ ایسے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کی اجازت دیتی ہے جبکہ میں ایسے شوہر کے ساتھ نہیں  رہنا چاہتی میں ان سے علیحد گی یعنی طلاق لے لوں۔کہیں میں عند اللہ گناہ گار تو نہیں ہوں گی؟ اس بات کی وضاحت مطلوب ہے ۔

وضاحت مطلوب ہے: کیا آپ عدالت کے ذریعے طلاق لینے کا پوچھ رہی  ہیں؟

جواب وضاحت: جی عدالت کے ذریعے ملے گی انشاءاللہ۔ کیا شریعت ایسے شوہر کے ساتھ رہنےکی اور   زندگی گزارنے کی اجازت دیتی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شوہر کے متعلق جو باتیں سوال میں مذکور ہیں اگر وہ حقیقت پر مبنی ہیں  تو ایسے حالات میں بیوی اگر شوہر سے طلاق لینا چاہے تو لے سکتی ہے شریعت ایسے حالات میں طلاق لینے کی اجازت دیتی ہے۔ نیز ایسے حالات میں عدالت سے یکطرفہ خلع بھی لیا جاسکتا ہے۔

شامی (3/441) میں ہے:

السنة ‌إذا ‌وقع ‌بين ‌الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع

ہندیہ (1/488) میں ہے:

‌إذا ‌تشاق ‌الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.

شرح الکبیر للدردیر  (2/ 345) میں ہے :

(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا ‌كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر.

فتاوی محمودیہ (13/190)  میں ہے:

سوال: زید کی شادی ہندہ سے ہوئی جب ہندہ زید کے گھر گئی تو معلوم ہوا کہ زید اغلام باز ہے اور ایک لڑکا مستقل اس کے پاس رہتا ہے۔ ہندہ نے زید  کو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر زید نہیں مانا پھر کہنے لگا کہ تم اس مرد سے بھی زن وشوہر کے تعلق رکھو جب ہندہ تیار نہ ہوئی تو اس پر  سختی کرتا ہے اس لیے ہندہ مجبورا ًاپنے میکے  آ گئی ہے۔ زید کے حالات سدھرنے  کی کوئی امید نہیں ، زید کے ساتھ رہنے میں حرام کا شدید اندیشہ ہےاس لیے زید  سے ہندہ مطالبہ طلاق کر سکتی ہے یا نہیں؟

 جواب: زید اگر افعال خبیثہ میں مبتلا ہو تو زوجہ کو چاہیے کہ اس کو نصیحت کرے اور سمجھائے اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو اس کو مطالبہ طلاق لازم نہیں لیکن اگر وہ زوجہ کو ان  حرکات خبیثہ  پرمجبور کرے جس سے زوجہ اپنی عصمت وعفت کومحفوظ نہ رکھ سکے تو زوجہ  کو اس سے علیحدہ رہنے اور طلاق طلب کرنے کا حق حاصل ہے ایسی حالت میں بہتر یہ ہے کہ  خلع کر لیا جائے یعنی بیوی مہر معاف کر دے  اور شوہر کا دیا ہوا زیور واپس کر دے اور حق زوجیت ساقط کر دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved