• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بغیر عذر کے دو نمازوں کو اکٹھاکرکے پڑھنے کا حکم

استفتاء

(1)زہیر نے کہا : ہمیں ابو زبیر نے سعید بن جبیر سے حدیث سنائی ، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو مدینہ میں کسی خوف اور سفر کے بغیر جمع کرکے پڑھا ۔ ابوزبیر نے کہا : میں نے ( ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے شاگرد ) سعید سے پوچھا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیاتھا؟انھوں نےجواب دیا : میں نے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سوا ل کیاتھا جیسے تم نے مجھ سے سوال کیا ہے تو انھوں نے کہا : آپ نے چاہا کہ اپنی امت کےکسی فرد کو تنگی اور دشواری میں نہ ڈالیں ۔(صحیح مسلم)

(2)قرہ بن خالد نے کہا : ہمیں ابو زبیر نے حدیث بیا ن کی ، کہا : ہمیں سعید بن جبیر نے حدیث سنائی ، انھوں نے کہا : ہمیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے حدیث بیا ن کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے دوران ایک سفر میں نمازوں کو جمع کیا ، ظہراورعصر کو اکھٹا پڑھا اور مغرب اور عشاء کو اکھٹا پڑھا ۔ سعید نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا تھا؟انھوں نے کہا : آپ نے چاہا اپنی امت کو حرج ( اور تنگی ) میں نہ ڈالیں ۔(صحیح مسلم)

(3)ابو معاویہ اور وکیع دونوں نے اعمش سے روایت کی ، انھوں نے حبیب بن ثابت سے انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر ، عصر اور مغرب ، عشاء کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کیا ۔ وکیع کی روایت میں ہے ( سعید نے ) کہا : میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کہا : تاکہ اپنی امت کو دشواری میں مبتلا نہ کریں اور ابو معاویہ کی حدیث میں ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا گیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا چاہتے ہوئے ایسا کیا؟انھوں نے کہا : آپ نے چاہا اپنی امت کو دشواری میں نہ ڈالیں ۔(صحیح مسلم)

(4)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر خوف اور بارش کے مدینے میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کیا ۔ ابن عباس رضی الله عنہما سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے کیا منشأ تھی؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشأ یہ تھی کہ آپ اپنی امت کو کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے، ابن عباس رضی الله عنہما سے اس کے خلاف بھی مرفوعاً مروی ہے ۔(جامع ترمذی)

کیا ان احادیث کی روشنی میں ہم ظہر اور عصرکی نماز اکٹھی پڑھ سکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جمع حقیقی(یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا)صرف  حاجیوں کے لیے عرفات اور مزدلفہ میں جائز ہے ان کے علاوہ کسی بھی موقع پر جمع بین الصلاتین حقیقی جائز نہیں۔

سنن الترمذی (1/ 356)میں ہے:

عن عكرمة عن ابن عباس : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال من جمع الصلاتين من غير عذر فقد أتى بابا من أبواب الكبائر.

ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا كہ جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔

موطا امام محمد(1/ 307)میں ہے:

قال محمد: بلغنا عن عمر بن الخطاب أنه كتب في الآفاق ينهاهم أن يجمعوا بين الصلاتين ويخبرهم أن الجمع بين الصلاتين في وقت واحد كبيرة من الكبائرأخبرنا بذلك الثقات.

ترجمہ:امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے امراء کو خط لکھا کہ وہ لوگوں کو جمع بین الصلاتین سے روکیں،اور ان کو بتا دیں کہ جمع بین الصلاتین ایک ہی وقت میں کبیرہ گناہ ہے۔اس روایت کو ثقہ راویوں نے ہم سے بیان کیاہے۔

صحیح البخارى (1/228) میں ہے:

قال عبدالله (ابن مسعود)قال: ما رأيت النبى عليه السلام صلى صلاة بغير ميقاتها إلا صلاتين ، جمع بين المغرب والعشاء ، وصلى الفجر قبل ميقاتها.

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺکونہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھی ہو، مگر دو نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (مزدلفہ میں)آپ نے جمع فرمائی۔

البتہ ضرورت کے موقع (سفر بارش وغیرہ) پرجمعِ صوری(ایک نماز کو اس کے آخر وقت میں پڑھنا اور دوسری نماز کو اس کے اول وقت میں پڑھنا) کی اجازت ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ظہر کو موٴخر کرتے تھے (آخری وقت میں ادا کرتے تھے) اور عصرکو مقدم کرتے (شروع وقت میں ادا کرتے تھے) اور مغرب کو موٴخر کرتے اور عشاء کو مقدم کرتے۔

سنن أبى داود (1/ 469)میں ہے:

عن نافع وعبد الله بن واقد أن مؤذن ابن عمر قال الصلاة. قال سر سر. حتى إذا كان قبل غيوب الشفق نزل فصلى المغرب ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء ثم قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به أمر صنع مثل الذى صنعت فسار فى ذلك اليوم والليلة مسيرة ثلاث.

ترجمہ:حضرت نافع اور عبداللہ بن واقد سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مؤذن نے کہا: نماز(پڑھ لی جائے)توعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: چلتے رہو پھر شفق غائب ہونے سے پہلے اترے اور مغرب پڑھی پھر انتظار کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی تو عشاء پڑھی، پھر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی کام کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے جیسے میں نے کیا ہے، چنانچہ انہوں نے اس دن اور رات میں تین دن کی مسافت طے کی۔

صحیح البخاری(1/148)میں ہے:

حدثنا أبو اليمان قال أخبرنا شعيب عن الزهري قال أخبرني سالم عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أعجله السير في السفر يؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء قال سالم وكان عبد الله يفعله إذا أعجله السير وزاد الليث قال حدثني يونس عن ابن شهاب (قال سالم كان ابن عمر رضي الله عنهما يجمع بين المغرب والعشاء بالمزدلفة قال سالم وأخر ابن عمر المغرب وكان استصرخ على امرأته صفية بنت أبي عبيد فقلت له الصلاة فقال سر فقلت الصلاة فقال سر حتى سار ميلين أو ثلاثة ثم نزل فصلى ثم قال هكذا رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصلي إذا أعجله السير) وقال عبد الله رأيت النبي صلى الله عليه وسلم إذا أعجله السير يؤخر المغرب فيصليها ثلاثا ثم يسلم ثم قلما يلبث حتى يقيم العشاء فيصليها ركعتين ثم يسلم ولا يسبح بعد العشاء حتى يقوم من جوف الليل.

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب سفر میں چلنے کی جلدی ہوتی تو آپ ﷺ مغرب کی نماز دیر سے پڑھتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔ سالم نے کہا کہ عبداللہ بن عمر ؓ کو بھی جب سفر میں جلدی ہوتی تو اس طرح کرتے۔

لیث بن سعد نے اس روایت میں اتنا زیادہ کیا کہ سالم نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کر کے پڑھتے تھے۔ سالم نے کہا کہ ابن عمر ؓ نے مغرب کی نماز اس دن دیر میں پڑھی تھی جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کی سخت بیماری کی اطلاع ملی تھی (چلتے ہوئے) میں نے کہا کہ نماز! (یعنی وقت ختم ہوا چاہتا ہے) لیکن آپ نے فرمایا کہ چلے چلو پھر دوبارہ میں نے کہا کہ نماز! آپ نے پھر فرمایا کہ چلے چلو اس طرح جب ہم دو یا تین میل نکل گئے تو آپ اترے اور نماز پڑھی پھر فرمایا کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ سفر میں تیزی کے ساتھ چلنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے یہ بھی فرمایا کہ میں نے خود دیکھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (منزل مقصود تک) جلدی پہنچنا چاہتے تو پہلے مغرب کی تکبیر کہلواتے اور آپ اس کی تین رکعت پڑھا کر سلام پھیرتے۔ پھر تھوڑی دیر ٹھہر کر عشاء پڑھاتے اور اس کی دو ہی رکعت پر سلام پھیرتے۔ عشاء کے فرض کے بعد آپ سنتیں وغیرہ نہیں پڑھتے تھے آدھی رات کے بعد کھڑے ہو کر نماز پڑھتے۔

مذکورہ بالا دلائل کی وجہ سےسوال میں مذکور روایات کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گانہ کہ جمع حقیقی پر۔

العرف الشذی(3/ 465)میں ہے:

قوله : ( جميع ما في هذا الكتاب من الحديث هو معمول به إلخ ) هذا قول المصنف دال على أن الأعلى في باب الدين تعامل السلف ، واعلم أن الحديثين معمولان بهما عندنا على ما حررت سابقاً فإن المذكور في الحديث هو الجمع الفعلي وذلك جائز عندنا بلا عذر ، وأما قتل شارب الخمر في المرة الرابعة فجائز عندنا تعزيراً .

الدر المختار (2/ 55) میں ہے:

( ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر ) سفر ومطر خلافا للشافعي وما رواه محمول على الجمع فعلا لا وقتا ( فإن جمع فسد لو قدم ) الفرض على وقته ( وحرم لو عكس ) أي أخره عنه ( وإن صح) بطريق القضاء ( إلا لحاج بعرفة ومزدلفة )…………….. ( قوله : محمول إلخ ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلا لا وقتا : أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved