• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بیٹھ کر نفل نماز پڑھنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

1۔ کیا بیٹھ کر نفل پڑھنا سنت ہے یا سنت سمجھے بغیر پڑھ سکتے ہیں؟

2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھ کر کسی عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے بھی پڑھتے  تھے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔بیٹھ کر نفل پڑھنا سنت تو نہیں ہے تا ہم جائز ضرور ہے نیز بغیر عذر کے بیٹھ کر نفل پڑھنے سے آدھا ثواب ملے گا۔

2۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر عذر کے بھی بیٹھ کر نفل پڑھتے تھے،  تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر عذر کے بھی بیٹھ کر نفل پڑھنے پر پورا اجر ملتا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر عذر کے بیٹھ کر نفل پڑھنے کی خصوصی اجازت تھی۔

مشکوٰۃ المصابیح (1/393) میں ہے:

عن عبد الله بن عمرو قال: حدثت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌صلاة ‌الرجل ‌قاعدا نصف الصلاة» قال: فأتيته فوجدته يصلي جالسا فوضعت يدي على رأسه فقال: «مالك يا عبد الله بن عمرو؟» قلت: حدثت يا رسول الله أنك قلت: «‌صلاة ‌الرجل ‌قاعدا على نصف الصلاة» وأنت تصلي قاعدا قال: «أجل ولكني لست كأحد منكم.

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ کر پڑھنے والے شخص کی نماز آدھی نماز ہے  میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا تو میں نے اپنا ہاتھ آپ کے سر مبارک پر رکھ لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ بن عمرو! کیا بات ہے میں نے کہا اے اللہ کے رسول مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو آدھا ثواب ملتا ہے اور آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں لیکن میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں۔

مرقاۃ المفاتیح (3/939) میں ہے:

(ولكنى ‌لست ‌كأحد منكم) : يعني هذا من خصوصياتي أن لا ينقص ثواب صلواتي على أي وجه تكون من جلواتي، وذلك فضل الله يؤتيه من يشاء، قال تعالى: {وكان فضل الله عليك عظيما} [النساء: 113] (رواه مسلم)

لمعات التنقیح (3/358) میں ہے:

وقوله: (لكني لست كأحد منكم) يعني: ذلك الذي ذكرتُ أن صلاة الرجل قاعدًا على نصف صلاته حكمُ غيري من الأمة، وأما أنا فخارج عن هذا الحكم، ويقبل مني ربي صلاتي قاعدًا مقدار صلاتي قائمًا، أو ذلك من خصائصي لما أختص به من غاية التوجه والحضور والمعرفة والقرب، فلا تقيسوني على أحد ولا تقيسوا أحدًا علي.

بذل المجہود (4/478) میں ہے:

(‌ولكني ‌لست ‌كأحد منكم) فصلاتي النافلة قاعدًا في تمام الأجر كصلاتي  قائمًا، فهذا من خصائصه  صلى الله عليه وسلم ، فجعلت نافلته قاعدًا مع القدرة على القيام كنافلته قائمًا تشريفًا له كما خص لأشياء معروفة.

الدر المختار مع ردالمحتار (2/585) میں ہے:

(‌ويتنفل ‌مع ‌قدرته على القيام قاعدا) ………. وفيه أجر غير النبي  صلى الله عليه وسلم  على النصف إلا بعذر

وفى الشامية: (قوله أجر غير النبي  صلى الله عليه وسلم) أما النبي  صلى الله عليه وسلم فمن خصائصه أن نافلته قاعدا مع القدرة على القيام كنافلته قائما؛ ففي صحيح مسلم «عن عبد الله بن عمرو قلت: حدثت يا رسول الله أنك قلت: صلاة الرجل قاعدا على نصف الصلاة وأنت تصلي قاعدا، قال: أجل، ولكني لست كأحد منكم.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved