- فتوی نمبر: 1-58
- تاریخ: 10 مئی 2005
- عنوانات: مالی معاملات > کمپنی و بینک > سودی بینکاری
استفتاء
بینک میں رقم رکھنے کے بعد جب میں نے وہ تمام رقم نکلوائی تو اس پر بینک نے خاطر خواہ منافع دے کر لوٹایا۔ اب اگر یہ رقم جائز نہیں تو اس اضافی رقم کا کیا کیا جائے؟ اگر ہم اس اضافی رقم کو اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتے تو ایسا ممکن ہے کہ یہ رقم کسی کو بطور قرض دی جائے اور پھر صرف اتنی ہی رقم کی واپسی ہو جو کہ ہم نے دی ہے اور واپسی کے بعد بھی اس کو ناجائز ہی تصور کیا جائے؟ یعنی آسان الفاظ میں یہ کہ کیا سود کی رقم کو اپنے پاس رکھ کر اسے لوگوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ( بطور قرضہ دیکر) بشرطیکہ اضافی رقم حاصل نہ کی ہو۔ اس کے علاوہ اگر اس اضافی رقم کو کسی کاروبار میں اس طریقہ پر استعمال کیا جائے جو مندرجہ ذیل میں شمار ہے تو کیا یہ صورت جائز ہوگی؟ ایک جنس جس کی قیمت 2 روپے بازار سے اس طرح خریدی کہ 1 روپیہ جائز اور 1 روپیہ سود کا شامل کیا اور پھر اس کو بازار میں ہی احسن طریقہ سے 4 روپیہ کا بیچ دیا تو ایسی صورت میں دو روپے کا منافع حاصل ہوا۔ اب اس 4 روپے میں کتنے روپے جائز تصور کر کے ذاتی استعمال میں لائے جاسکتے ہیں اور کتنے روپے ناجائز تصور کر کے الگ کرنا ہوں گے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اول تو ایسی رقم لینا ہی جائز نہیں۔ اور اگر لا علمی میں ایسی اضافی رقم لے لی ہے تو یہ رقم ثواب کی نیت کیے بغیر مستحق زکوٰة کو صدقہ کر دی جائے۔ ایسی رقم کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا یا کسی کو بطور قرضہ دینا یا حلال سرمایہ میں ملا کر کاروبار میں لگانا سب ناجائز ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved