- فتوی نمبر: 33-400
- تاریخ: 19 اگست 2025
- عنوانات: مالی معاملات > کمپنی و بینک > سودی بینکاری
استفتاء
1۔قرض جو کہ ہم بينک سے لیتے ہیں کچھ لوگوں کا کہنا ہےکہ جو رقم وہ اوپر لیتے ہیں وہ ملازمین کے لیے لیتے ہیں کہ انہیں بھی تنخواہ پر رکھا ہوتا ہے اس لیے یہ سود نہیں بنتی ۔
2۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے سود وزنی چیز کا ہوتا ہے مثلاً گندم، چاول، جو، سونا وغیرہ وغیرہ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔بینک سے لیا جانے والا قرضہ سودی قرضہ ہی ہوتا ہے اور اس قرض پر اضافی لی جانے والی رقم سود ہی ہے خواہ وہ کسی بھی نام سے لی جائے ۔باقی کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ بینک والے جو اضافی رقم لیتے ہیں وہ ملازمین کے لیے لیتے ہیں حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ اگر وہ یہ رقم ملازمین کے لیے لیتے ہیں تو انہیں خود کیا بچتا ہے؟ نیز اس میں قرضوں کی رقم کے کم وبیش ہونے سے کیوں فرق پڑتا ہے؟ اور کس فارمولے کے تحت یہ کم و بیش رقم لی جاتی ہے؟
2۔سود وزنی چیز کا بھی ہو سکتا ہے کیلی کا بھی ہو سکتا ہے اور روپوں کے باہم تبادلے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور روپے قرض دے کر ان پر نفع لینے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے جیساکہ بینک کرتا ہے، لہذا یہ کہنا کہ سود (صرف) وزنی چیز کا ہوتا ہے درست نہیں ہے۔
تفسیر کبیر (7/72) میں ہے:
اعلم أن الربا قسمان: ربا النسيئة، وربا الفضل.
أما ربا النسيئة فهو الأمر الذي كان مشهورا متعارفا في الجاهلية، وذلك أنهم كانوا يدفعون المال على أن يأخذوا كل شهر قدرا معينا، ويكون رأس المال باقيا، ثم إذا حل الدين طالبوا المديون برأس المال، فإن تعذر عليه الأداء زادوا في الحق والأجل، فهذا هو الربا الذي كانوا في الجاهلية يتعاملون به.وأما ربا النقد فهو أن يباع من الحنطة بمنوين منها وما أشبه ذلك
بدائع الصنائع (7/43) میں ہے:
فالربا في عرف الشرع نوعان: ربا الفضل، وربا النساء.
(أما) ربا الفضل فهو: زيادة عين مال شرطت في عقد البيع على المعيار الشرعي، وهو الكيل، أو الوزن في الجنس عندنا وعند الشافعي هو: زيادة مطلقة في المطعوم خاصة عند اتحاد الجنس خاصة.(وأما) ربا النساء فهو فضل الحلول على الأجل، وفضل العين على الدين في المكيلين، أو الموزونين عند اختلاف الجنس، أو في غير المكيلين، أو الموزونين عند اتحاد الجنس عندنا وعند الشافعي رحمه الله هو فضل الحلول على الأجل في المطعومات، والأثمان خاصة، والله تعالى أعلم
الدر المختار (7/421) میں ہے:
(وعلته) أي علة تحريم الزيادة (القدر) المعهود بكيل أو وزن (مع الجنس فإن وجدا حرم الفضل) أي الزيادة (والنساء) بالمد التأخير فلم يجز بيع قفيز بر بقفيز منه متساويا وأحدهما نساء (وإن عدما) بكسر الدال من باب علم ابن مالك (حلا) كهروي بمرويين لعدم العلة فبقي على أصل الإباحة (وإن وجد أحدهما) أي القدر وحده أو الجنس (حل الفضل وحرم النساء) ولو مع التساوي.
فتاوی محمودیہ (271/16) میں ہے
سوال: کیسا نفع سود کہلاتا ہے اور سود کسے کہتے ہیں؟
الجواب: جو زیادتی بلا معاوضہ حاصل ہو وہ سود ہے جیسے ایک من گندم دے کر ایک من ایک سیر گندم لینا،دس تولہ چاندی دے کر گیارہ تولہ چاندی لینا، پانچ تولہ سونا دے کر ساڑھے پانچ تولہ سونا لینا، سو روپے دے کر ایک سو پانچ روپے لینا وغیرہ وغیرہ۔
کفایت المفتی (8/105) میں ہے :
سوال: موضع نواب گنج ضلع پرتاب گڑھ تحصیل کنڈہ میں تقریبا سو گھر مسلمانوں کے ہیں جس میں کہ 1936ء سے باسم بیت المال کمپنی قائم ہے جس کا مقصد صرف مسلمانوں کو سود کے ہر گناہ سے بچانا ہے اور مسلمانوں کو کافروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے روک کر خود بلا سودی قرض دینا ہے علاوہ ازیں محتاجوں کی لاوارثوں کی میتوں کی تجہیز و تکفین (کفن و دفن) کا خرچ کمیٹی سے دیا جانا اور یتیموں اور بیواؤں کی امداد کرنا ہے مگر اب تک آمدنی کے ذرائع ایسے نہیں کہ جس سے آمد و رفت کا خرچہ پورا ہو سکے اور مسلمانوں کی پوری پوری امداد کی جا سکے یہ بھی واضح رہےکہ کسی مسلمان پر کسی قسم کا چندہ نہیں ہے ہاں صرف آمدنی فطرہ،چرم قربانی وعقیقہ اور نکاح کی آمد پر اب تک چلایا گیا یہ وقت آیا کہ بیت المال بالکل خالی ہے اور مسلمان کاشتکاروں کو روپیہ تخم ریزی کو کہاں سے دیا جائے تاکہ مسلمان کا شکار ڈیوڑھا سود دینے سے بچیں کارکنان بیت المال مجبور تھے روپیہ نہ تھا تو کمیٹی کے صدر سیکرٹری خازن نے اپنی اپنی ضمانتوں پر دوسو روپے بلا سودی قرض لے کر مسلمان کاشتکاروں کو آج 20 اکتوبر 1939ء کو بلا سودی چھ ماہ کے لیے روپیہ تقسیم کیا آج کمیٹی یہ طے کرتی ہے کہ آمدنی بڑھانے کی صورت یہ کی جائے کہ ٹکٹ بٹوائے جائیں یعنی ٹکٹ قرضدار لے کر فارم پر چسپاں کر کے درخواست دے تو قرضدار کو بلا سودی تین ماہ کے روپے دیے جائیں تو عالیجاہا ایسے ٹکٹوں پر مسلمانوں کو بلا سودی قرضہ دیا جا سکے گا یا نہیں شرح ٹکٹ اور قواعد ٹکٹ ذیل میں لکھ دیے گئے ہیں ٹکٹ ایک روپے سے پانچ روپے تک کے قرضدار کو صرف چار پیسہ کا ٹکٹ خرید کر فارم پر لگا کر درخواست دینا ہوگا اور چھ روپے سے 10 روپے تک کے قرضدار کو دو کا ٹکٹ خرید کر فارم پر چسپاں کرنے سے روپیہ دیا جا سکے گا۔
الجواب: فارم کے ٹکٹوں کی قیمت قرض خواہوں سے لے کر قرض دینا بھی جائز نہیں کیونکہ یہ قیمت ٹکٹوں کی یعنی قرض خواہوں سے بعینہ سود ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved