- فتوی نمبر: 2-231
- تاریخ: 20 جنوری 2009
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات > منتقل شدہ فی عبادات > مالی معاملات
استفتاء
1۔ایک شخص نے بقرہ عید میں قربانی کے لیے 23000 روپے کا ایک بڑا جانور خریدا۔ اپنے گھر کے سات شرکاء کی نیت سے جن میں بعض پر قربانی واجب تھی ۔بعض پر نہیں۔پھر گھر کے دو افراد کے تقاضہ پراس جانور کو بیچ کر 14000 روپے ایک بڑاجانور خریدا اور بقایا رقم کے دو بکرے خریدے۔ الحاصل 23000روپے میں سات افراد بحصہ شریک تھے۔ اور اب 23000رپے کے نو حصے خریدے گئے۔ نو افراد کے لیے۔اس طرح کرنا جائز ہے؟ یا 14000 کے علاوہ رقم کا صدقہ کرنا واجب ہے ۔کمافی کتب الفقہ "یلزم التصدق”
2۔ایک شخص نے 19000روپے کا ایک چھوٹا جانور دنبہ خریدا بعد میں گھر کے دو افراد کے کہنے پر کہ ان 19000 روپے سے سب کی طرف سے قربانی ہوسکتی ہے اس کو بیچ کر بڑا جانور تقریباً اسی رقم کا خریدا۔ الحاصل پہلے ایک حصہ پھرایک حصہ سےسات حصے بن گئے۔ اس طرح کرنا جائز ہے؟ یا پھر کیا کیا جائے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔لازم تو نہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ زائد رقم صدقہ کردے۔
وبالشراء بنية الأضحية إن كان المشتري غنياً لا يجب عليه بإتفاق الروايات حتی لو باعها واشتری بثمنها أخری والثانية دون الأولی جاز ولا يجب عليه شئ وإن كا ن المشتري فقيراً:قال في شرح الشامي من اشتری شاة ليضحی بها تعينت بالنية عندالطحاوي قال ومذهب الجمهور إنها لا تصيرلها إلا أن يقول علی أن أضحی بها لأن نفس النية غير موجبة وهكذا ذكر شمس الأئمة الحلواني وذكر الإمام خواهرزاده في ظاهر الرواية عن أصحابنا تصير واجبة وهكذا ذكر الطحاوي (خلاصة الفتاوی 4/ 318 )
وقال فی البحر إن كان فقيراً ذكر شيخ الإسلام خواهر زاده في ظاهر الرواية تصير واجبة بنفس الشراء وروی الزعفراني عن أصحابنا لاتصير واجبة وأشار إليه شمس الأيمة السرخسي وإليه مال شمس الأيمة الحلواني في شرحه وقال إنه ظاهر الرواية. (بحر8/ 320)
قال فی الشامية تحت قوله (لوجوبها عليه بذلك )أی بالشراء وهذا ظاهرالرواية لأن شراءه لها بجري مجری الإيجاب وهو النذر بالتضحية عرفاً.ووقع فی التاترخانية بقوله شراءها لها أيام النحر،ظاهره أنه لو شراها لها قبلها لها لا يجب. (شامی9/ 533)
2۔ایسا کرنا بہتر نہیں۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved