- فتوی نمبر: 34-34
- تاریخ: 02 ستمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان > مہر کا بیان
استفتاء
1۔ہماری برادری میں شادی نکاح کا حق مہر بطور سونا رکھتے ہیں جس میں لڑکی والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ رکھا جائے اور لڑکے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم ہو۔ پہلے تین تولہ مقرر ہوا پھر ایک تولہ مقرر ہوا کہ سب لوگ اس پر حق مہر رکھیں گے لیکن اب ایک تولہ بھی تقریباً چار لاکھ کے قریب ہو گیا ہے اس لیے فریقین یعنی لڑکے اور لڑکی والے پریشان رہنے لگے اب برادری کے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ حق مہر ایک لاکھ روپے ہوگا اس سے زیادہ نہیں رکھیں گے اگر کوئی اس سے کم رکھتا ہے تو بہتر ہے مگر اس سے زیادہ نہیں ہوگا البتہ اگر کوئی شادی کے بعد اپنی مرضی سے لڑکی کے لیے سونا زیور بناتا ہے تو ٹھیک ہے اگر وہ صاحب حیثیت ہو۔
2۔لڑکی والے فرنیچر اور بہت سارا سامان اور لڑکے والوں کے رشتہ داروں کے لیے بہت سے جوڑے اور کپڑے بناتے تھے اس پر بھی پابندی ہو گئی ہے البتہ ضرورت کے مطابق سامان وغیرہ مختصر سا بنا سکتے ہیں۔
آپ سے بصورت فتویٰ رہنمائی کی ضرورت ہے کہ آیا ہمارا یہ فیصلہ شریعت کے خلاف یا گناہ کا سبب تو نہیں ہے؟ برادری کا سب کے لیے ایک لاکھ روپے مہر مقرر کرنا اور سب کے لیے اس کو لازم کرنا کہ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں، یہ عمل شریعت کی روشنی میں کیسا ہے؟
وضاحت مطلوب ہے: سائل کی خاندان میں کیا حیثیت ہے؟
جواب وضاحت: میں طالبعلم ہوں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ فیصلہ شریعت کے خلاف یا گناہ کا سبب نہیں بشرطیکہ اسے صرف ایک انتظامی فیصلہ سمجھا جائے شرعی فیصلہ نہ سمجھا جائے یعنی سب کے ذہنوں میں یہ بات واضح ہو کہ شریعت میں زیادہ سے زیادہ مہر کی کوئی حد مقرر نہیں اور اگر کوئی زیادہ مہر مقرر کرتا ہے تو وہ گنہگار بھی نہیں تاہم اس نے باہمی سمجھوتے کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے اسے اس حد تک تنبیہ کی جا سکتی ہے کہ لوگ اس کی شادی کی تقریب میں شریک نہ ہوں۔
2۔ اس پابندی کا بھی وہی حکم ہے جو مہر کی پابندی کا ہے یعنی اسے صرف ایک انتظامی پابندی سمجھا جائے شرعی پابندی نہ سمجھا جائے۔
مجمع الزوائد (4/522)میں ہے:
عن مسروق، قال: ركب عمر بن الخطاب منبر رسول الله ثم قال: أيها الناس، ما إكثاركم في صداق النساء وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه وإنماالصدقات فيما بينهم أربعمائة درهم فما دون ذلك. ولو كان الإكثار في ذلك تقوى عند الله أو مكرمة لم تسبقوهم إليها. فلا أعرفن ما زاد رجل على أربعمائة درهم قال: ثم نزل فاعترضته امرأة من قريش فقالت: يا أمير المؤمنين، نهيت الناس أن يزيدوا النساء صدقاتهن على أربعمائة درهم؟ قال: نعم. فقالت: أما سمعت ما أنزل الله في القرآن؟ قال: فأنى ذلك؟ فقالت: أما سمعت الله يقول: [وآتيتم إحداهن قنطارا فلا تأخذوا منه شيئا أتأخذونه بهتانا وإثما مبينا] فقال اللهم غفرا، كل الناس أفقه من عمر. ثم رجع فركب المنبر فقال: إني كنت نهيتكم أن تزيدوا النساء في صدقاتهن على أربعمائة درهم، فمن شاء أن يعطي من ماله ما أحب. قال أبويعلى: قال: وأظنه:قال: فمن طابت نفسه فليفعل. رواه أبويعلى فى الكبير.
در مختار مع رد المحتار (4/220)میں ہے:
( أقله عشرة دراهم ) لحديث البيهقي وغيره لا مهر أقل من عشرة دراهم۔۔۔ ويجب (الأكثر منها إن سمى ) الأكثر
قال ابن عابدین: قوله : (ويجب الأكثر) ای : بالغا ما بلغ.
کفایت المفتی (5/123) میں ہے :
جواب: مہر کے لیے کم از کم مقدار 10 درہم ہے اور زیادہ کی حد مقرر نہیں ہے۔ یعنی اگر کسی شخص کو قدرت ہو تو وہ اپنی قدرت کے موافق جتنا مہر مقرر کرے تو اتنا مہر لازم ہو جاتا ہے لیکن اپنی طاقت اور قدرت سے زیادہ مہر مقرر کرنا مذموم ہے۔ اگر کوئی انجمن اصلاح کے طور پر مہر کا اوسط درجہ مقرر کر دے تو مضائقہ نہیں۔ مگر اس قاعدے کو اس طرح بنایا جائے کہ شرعی حکم کی تشریح بھی اس میں موجود ہو مثلا یہ عبارت ہو کہ شریعت مقدسہ میں مہر کی کم از کم مقدار 10 درہم ہے اور زائد کے لیے کوئی حد معین نہیں ہے۔ شوہر اپنی وسعت کے موافق جتنا ادا کر سکے مقرر کر سکتا ہے۔ اس شرعی حکم کو پیش نظر رکھتے ہوئے انجمن اصلاح کے لیے یہ حد مقرر کرتی ہے۔ کم از کم مقدار تو وہی جو عورت یا اس کا ولی منظور کرے مگر زیادتی کی جانب میں 614 روپے سے زیادہ تجاوز نہ کیا جائے۔ اس عبارت کے ساتھ قاعدہ بنایا جائے اور خلاف کرنے والے پر جرمانہ کرنا جائز نہیں۔ جو خلاف کرے اس کو صرف یہ تنبیہ کی جائے کہ لوگ اس کی تقریب میں شرکت نہ کریں اور اگر کوئی خاص شخص صاحب وسعت زیادہ مہر مقرر کرنے کی درخواست کرے تو انجمن میں اس کی درخواست پیش ہو اور انجمن مناسب سمجھے تو اس کو خاص طور پر اس شرط سے اجازت دے دے کہ وہ مہر بوقت عقد فوراً ادا کر دے اور عورت کے نام اس رقم کی جائیداد خریدی جائے تاکہ وہ محفوظ ہو جائے۔
خیر الفتاوی (4/558) میں ہے:
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج زیل مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں اکثر لوگ لڑکیوں کا مہر دو لاکھ یا ایک لاکھ 50 ہزار کے لگ بھگ رکھتے ہیں اور مذکورہ رقم میں سے 25 یا تیس ہزار لڑکی پر خرچ کرتے ہیں باقی رقم خود کھاتے ہیں لہذا اگرچہ یہ تعیین شرع نہیں لیکن سد حرام کی خاطر ہمارے علاقے کے علمائے کرام اور معتبرران قوم نے فیصلہ کیا کہ آئندہ کے لیے 50 ہزار سے زیادہ مہر ممنوع ہوگا؟
الجواب: قوم کا یہ فیصلہ امر مستحسن ہے کیونکہ مہر میں زیادتی اگرچہ مشروع ہے لیکن مطلوب شرعی نہیں ہے۔
اما المشروعية فلقوله تعالى وآتيتم احداهن قنطارا فلا تاخذوا منه شيئا (سورة النساء) وأما عدم المطلوبية فلقول عمر رضي الله تعالى عنه ألا لا تغالوا صدقة النساء فانها لو كانت مكرمة في الدنيا او تقوى عند الله لكان اولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم( ترمذي، باب مهور النساء)
اور جب ایک مباح اور غیر مطلوب شرعی امر مفاسد کا ذریعہ بنتا ہے تو وہ بھی ممنوع ہوتا ہے كما يشير اليه قوله تعالى لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا الآيه. اور کثرت مہر بسا اوقات استمناء بالکف، لواطت، زنا وغیرہ کی طرف مفضی ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved