- فتوی نمبر: 33-107
- تاریخ: 30 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > تعلیق طلاق
استفتاء
میرا بھائی مجھ سے ناراض تھا۔ اس نے میری بھابھی کو غصے میں میرے گھر سے روکا اس نے غصے میں بولا کہ “اگر تم میری بہن (یعنی میرے) گھر گئی تو تمہیں میری طرف سے طلاق ہو جائے گی” وہ چودہ پندرہ سال سے میرے گھر نہیں آئی کیونکہ اگر وہ میرے گھر آئے تو میرے بھائی کی کہی ہوئی بات پوری ہوتی ہے اس ڈر سے وہ میرے گھر نہیں آتی۔ اگر کسی کی شادی و غیرہ ہو، جیسا کہ میرے دیور کی شادی تھی تو باہر ٹینٹ وغیرہ میں کھانا کھایا اور باہر سے ہی چلی گئی۔اب سوال یہ ہے کہ میری بیٹی کی شادی ہے تو اب بھی میرے گھر سے باہر ٹینٹ وغیرہ میں ہی آئے گی؟ کیا میری بھابھی کو اتنے سال گزرنے کے بعد بھی میرے گھر آنے کی اجازت نہیں؟ صرف باہر ٹینٹ میں ہی آسکتی ہے؟براہ مہربانی اس مسئلہ پر غور فکر کر کے جواب دیں۔
وضاحت مطلوب ہے: شوہر کا رابطہ نمبر مہیا کریں۔
جواب وضاحت:********
شوہر کا بیان:
میری اپنی بہن سے ناراضگی چل رہی تھی۔ میری بیوی نے اس کے گھر جانے کو کہا تو میں نے غصہ میں ایک بار اپنی بیوی سے کہا کہ”اگر تم میری بہن کے گھر گئی تو تم میری طرف سے فارغ ہو” میری نیت طلاق دینے کی نہ تھی میں تو بس اپنی بیوی کو بہن کے گھر جانے سے روکنا چاہتا تھا۔
بیوی کا بیان:
میرے شوہر کی اپنی بہن سے ناراضگی چل رہی تھی۔ میں نے اپنے شوہر کے سامنے ان کی بہن کے گھر جانے کی بات کی تو انہیں غصہ آگیا اور غصہ میں ہی انہوں نے مجھے ایک بار کہا کہ” اگر تم میری بہن کے گھرگئی توتم میری طرف سے فارغ ہو”
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جب آپ کی بھابھی آپ کے گھر آئیں گی تو ان کے حق میں ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی جس کے بعد میاں بیوی کو اکٹھے رہنے کے لیے باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا ہوگا جس میں کم از کم دو گواہ بھی ہوں گے اور مہر بھی نیا مقرر ہوگا۔ نیز ایک دفعہ جانے کے بعد شرط ختم ہوجائے گی اس کے بعد دوبارہ جانے سے طلاق واقع نہ ہوگی۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے جو الفاظ استعمال کیے تھے کہ” اگر تم میرے بہن کے گھر گئی تو تم میری طرف سے فارغ ہو” یہ الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں جن سے غصے کی حالت میں کہنے کی وجہ سے شوہر کی نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے لہذا مذکورہ صورت میں شوہر کی طلاق کی نیت نہ ہونے کے باوجود بیوی کے آپ کے گھر آنے پر بائنہ طلاق معلق ہو گئی تھی اور اس تعلیق میں زمانے کی کوئی قید نہ تھی اس لیے بیوی جب بھی خلاف ورزی کرے گی طلاق واقع ہو جائے گی۔
ہندیہ (1/457) میں ہے:
وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقاً مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.
ہندیہ (1/452) میں ہے:
ألفاظ الشرط إن وإذا وإذاما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها لا تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده إلا في كلما.
شامی(4/521) میں ہے:
والثالث يتوقف عليها (أي على النية.از ناقل) في حالة الرضا فقط. ويقع في حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.
تنویر الابصار (4/522) میں ہے :
وتقع رجعية بقوله اعتدى واستبرئي رحمك وأنت واحدة وبباقيها البائن إن نواها.
در مختار (5/42) میں ہے :
وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع.
احسن الفتاوی(5/188) میں ہے:
سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے “تو فارغ ہے” یہ کون سا کنایہ ہے……. حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔بینوا توجروا۔
جواب : بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے۔ اس لیے عند القرینہ بلا نیت بھی اس سے طلاق واقع ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved