- فتوی نمبر: 33-378
- تاریخ: 16 اگست 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان > مہر کا بیان
استفتاء
میری شادی 2020 میں ہوئی تھی اور شادی کی تاریخ جب رکھی گئی تھی تو مجھے میرے والد صاحب نے بتایا تھا کہ حق مہر میں ایک لاکھ طے ہوا ہے جو کہ آپ کی ذمے داری ہے آپ ہی دیں گے،میں نے شادی سے پہلے وہ رقم اپنے والد صاحب کو جمع کروا دی تھی لیکن جب نکاح کا وقت آیا تو میرے والد صاحب کی طرف سے حق مہر میں ایک لاکھ کی جگہ دس ہزار روپے اور تین مرلہ زمین لکھوا دی گئی تھی یہ بات مجھے اس وقت معلوم ہوئی جب مفتی صاحب نے میرا نکاح نامہ پڑھا۔
میری رہنمائی کیجئے کہ اب یہ زمین میرے والد صاحب دیں گے یا میں؟ کیونکہ جو مجھے کہا گیا تھا اس کے مطابق میں ایک لاکھ اپنے والد صاحب کو دے چکا تھا اس زمین کے بارے میں مجھے کوئی معلومات نہیں تھیں اور میرے والد صاحب نے کہا تھا یہ میں دوں گا۔جو ایک لاکھ روپے میں نے دیئے تھے وہ شادی میں استعمال ہوگئے تھے۔
وضاحت مطلوب ہے: (1) ایجاب و قبول کے وقت حق مہر کا ذکر کیا گیا تھا؟(2) اپنے والد صاحب کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔
جواب وضاحت:(1) ایجاب و قبول کے وقت حق مہر کا ذکر کیا گیا تھا۔(2) والد صاحب کا رابطہ نمبر: ***********
نوٹ: والد سے رابطہ کرکے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ سب گھر والوں کے علم میں تھا کہ زمین مہر میں لکھوا رہے ہیں اور گھر میں بات ہوتی رہتی تھی۔میں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ میری بیٹی لڑکی والوں کے گھر میں بیاہی ہوئی ہے مجھے ڈر تھا کہ کہیں بیٹا غلط قدم نہ اٹھا لے اس لیے اتنا مہر لکھوایا اور بیٹا نکاح کے وقت بات کر سکتا تھا کیونکہ نکاح کے وقت بھی تو مہر ذکر کیا گیا تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ زمین آپ کے والد صاحب کے ذمے ہو گی۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں والد نے اپنے بیٹے کو جب یہ بتا دیا تھا کہ حق مہر ایک لاکھ روپے طے ہوا ہے،اور یہ رقم بیٹے نے والد کو جمع بھی کروا دی تھی تو اب والد کے ذمے تھا کہ وہ مہر میں ایک لاکھ روپے لکھواتا لیکن جب والد نے ایسا نہیں کیا اور مہر کی رقم شادی میں استعمال کر کے اپنے طور پر تین مرلے زمین اور 10 ہزار روپے مہر میں لکھوا دیے اور اس کا مقصد بھی اپنی بیٹی کا تحفظ تھا اور بیٹے نے صراحتاً اسے قبول بھی نہیں کیا تو یہ تین مرلے زمین والد کے اپنے ذمے ہوگی۔
شامی (3/140) میں ہے:
(وصح ضمان الولي مهرها ولو صغيرة وتطلب أيا شاءت) من زوجها البالغ، أو الولي الضامن
خیر الفتاویٰ (4/534)میں ہے:
سوال: محمد سلیم کا نکاح ہوا،اس وقت 30 ہزار روپے اور ایک مرلہ زمین حق مہر مقرر ہوا،اب سلیم اپنے والد ابراہیم سے کہتا ہے کہ ایک مرلہ حق مہر زمین ادا کرو،شریعت کے رو سے فرمائیں کہ آیا مہر خاوند کے ذمے ہے یا اس کے والد کے ذمہ؟ جبکہ والد نے زبانی طور پر کوئی قید و شرط نہیں لگائی کہ میں ادا کروں گا۔البتہ نکاح نامہ میں والد کی اجازت سے ایک مرلہ مکان کی زمین بطور مہر کے لکھی گئی تھی۔
جواب: بر تقدیر صحت واقع صورت مسئولہ میں والد کو چاہیے کے مکان کا جتنا حصہ بطور مہر لکھوایا تھا وہ یا اس کی قیمت وہ محمد سلیم کی زوجہ کو ادا کرے۔مہر کے خانہ میں لکھوانا ایک قسم کی ضمانت ہے اور ولی شرعاً مہر کا ضامن بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved