• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بلا وصیت والد کی طرف سے حج کروانے کا حکم

استفتاء

1۔ والد صاحب کے حوالے سے حج کی فرضیت کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ ان کی زندگی میں ان پر حج فرض تھا یا نہیں؟ اور اگر تھا تو ان کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہو گا؟

ہمارے والد صاحب کا انتقال 23 جون 2001ء میں ہوا تھا۔

چونکہ والد صاحب سرکاری ملازمت کرتے تھے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ (پنشن) اور  گریجویٹی کی مالیت تقریباً 800000 روپے۔  ایک مکان تھا رہائش کے لیے فیصل آباد میں جس میں میرے بڑے بھائی رہائش پذیر تھے۔ تین عدد پلاٹ تھے یہ پلاٹ کئی سال سے والد صاحب کے پاس تھے۔ ان پلاٹوں کی مالیت اتنی تھی کہ وہ بیچ کر  حج کر سکتے تھے۔

کیا اس صورت میں والد صاحب پر حج فرض تھا؟ اگر تھا تو ان کو وصیت کا موقع نہیں ملا کیا ورثاء اپنی طرف سے حج کروا سکتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے والد پر حج فرض تھا۔ انہوں نے اگرچہ وصیت نہیں کی تاہم آپ اپنی طرف سے ان کا حج  (بدل)کروا سکتے ہیں۔ اس سے ان کے حج کا فریضہ انشاء اللہ ادا ہو جائے گا۔

البحرالرائق (2/549) میں ہے:

لا بد أن يكون محتاجاً إليه للسكنى فلا تثبت الاستطاعة بدار يسكنها وعبد يستخدمه وثياب يلبسها ومتاع يحتاج إليه، وتثبت الاستطاعة بدار لا يسكنها وعبد لا يستخدمه فعليه أن يبيعه ويحج بخلاف ما إذا كان سكنه وهو كبير يفضل عنه يمكنه بيعه والاكتفاء بما دونه ببعض ثمنه ويحج بالفضل.

فتاویٰ شامی (4/16) میں ہے:

لو مات رجل بعد وجوب الحج ولم يوص به فحج رجل عنه أو حج عن أبيه أو أمه عن حجة الإسلام من غير وصية قال أبو حنيفة: يجزيه إن شاء الله وبعد الوصية يجزيه من غير المشية ثم أعاد في شرح اللباب المسألة في محل آخر وقال فلو حج عنه الوارث أو أجنبي يجزيه وتسقط عنه حجة الإسلام إن شاء الله تعالى لأنه إيصال للثواب وهو لا يختص بأحد من قريب أو بعيد على ما صرح به الكرماني والسروجي….. (لوجود الأمر دلالة) لأن الوارث خليفة المورث في ماله فكأنه صار مأموراً بأداء ما عليه أو لأن الميت يأذن بذلك لكل أحد بناء على ما قلنا من أن الوارث غير قيد.

عمدۃ الفقہ (4/341) میں ہے:

’’پس حج میں نیابت جائز ہونے کی ایک شرط عاجز شخص کا دوسرے شخص کو اپنی طرف سے حج کرنے کا صریحاً امر کرنا ہے جبکہ وہ شخص زندہ ہو۔ ۔۔۔ یا آمر کا امر کرنا دلالۃً پایا جائے۔ دلالۃ ً کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص مر گیا اس پر حج فرض تھا اس نے اس کی ادائیگی کے لیے کوئی وصیت نہیں کیا یا اس نے وصیت کی لیکن کوئی مال نہیں چھوڑا۔ اب اگر کوئی وارث یا اجنبی شخص اس کی طرف سے تبرعاً حج کر دے یا کسی دوسرے شخص  سے کرا دے تو امام ابو حنیفۃ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ انشاء اللہ اس میت کا حج فرض ادا ہو جائے گا کیونکہ دلالۃ ً امر پایا جاتا ہے۔‘‘……………………………………… فقط و الله تعالى أعلم ([1])

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved