- فتوی نمبر: 33-85
- تاریخ: 22 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > کنائی الفاظ سے طلاق کا حکم
استفتاء
مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ میرا نکاح قاری ***** (امام و خطیب مسجد ***) کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں شرعی طور پر ان کے مسجد والے گھر ***** میں 22 فروری 2023 کو ہوا اور اس میں میرا کوئی مہر مقرر نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک شوہر نے میرے کوئی حقوق ادا نہیں کیے۔ مجھے گھر بھی نہیں دیا۔ ایک دن جنوری 2025 میں میں نے اسے میسج پہ کہا کہ تم میرے حقوق کا خیال نہیں رکھتے، میاں بیوی کے رشتے کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے آپ کو پتہ ہے؟آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں اور میرے کوئی حقوق ادا نہیں کرتے چلو میرا اللہ تو ہے اس سے تو ڈرو میرے حقوق کے بارے میں۔ ایسی باتیں کہیں میں نے اور اس نے اس کے جواب میں وائس میسج پر کہا “آپ میری طرف سے آزاد ہیں جو مرضی کریں جہاں جائیں جو چاہیں کریں”۔ اب میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا اس سے طلاق ہو گئی ہے یا نہیں ہوئی؟ اگر ہو گئی ہے تو ہمارے نکاح کا کیا حکم ہے ؟
تنقیح :میاں بیوی کے مابین میسج پر گفتگو:
بیوی: میرا حق مہر کتنا ہے؟
شوہر: بڑی معذرت، اب یہ باتیں ختم ہو چکی ہیں،آپ کو روزانہ ایک نئی کہانی یاد آتی ہے آپ اپنی زندگی جیو۔ زندگی آسانی کا نام ہے مشکلات کا نہیں، بڑی معذرت۔
بیوی :کیا مطلب؟معاملہ ختم کرنے کے لیے بھی حق مہر پوچھا جاتا ہے اور جوڑنے کے لیے بھی۔
شوہر: اب معاملہ ختم ہے۔ آپ کو فلاں رقم دی تھی اسی کو حق مہر سمجھ لیں۔ اگر نہیں ملی تھی تو دوبارہ بھیج دوں گا۔ اللہ آپ کے لیے خیر کرے، دعاؤں کی درخواست ہے۔
بیوی: ہمارا اسلام کیا کہتا ہے میاں بیوی کے رشتے کے بارے میں؟ وہ تو ایک دوسرے کے خوشی غمی کے ساتھی ہوتے ہیں لیکن آپ میری بالکل بھی ذمہ داری نہیں اٹھاتے! میرے دل سے آپ کے لیے جو بد دعائیں نکل رہی ہیں وہ اگر قبول ہو گئیں تو پھر آپ لوگوں کو بتاتے پھریں گے۔ مجھے معلوم ہے کہ بددعا نہیں دینی چاہیے لیکن اب ایک بے بس انسان اور کیا کرے۔ آپ میرے معاملے میں اللہ سے بھی نہیں ڈرتے۔
شوہر: دماغ خراب اوروں کا بھی کرنے کے لیے ہے۔ میری طرف سے تو آزاد ہے سمجھ آئی ہے! میں نے کب تیرے پر کوئی جبر کیا ہے تیری اصلیت یہ تھی کہ جن کے ساتھ تم اٹھ بیٹھ سو جاگ رہی تھی وہی ٹھیک تھا۔ جیڑا (جو) بندہ خود بدلنا نہیں چاہتا انوں فر بدلن دی (اسے پھر بدلنے کی) ضرورت وی (بھی) نہیں ہوندی(ہوتی) ! میری طرف سے آپ آزاد ہیں جو مرضی کریں جہاں جائیں جو کریں۔
نوٹ: شوہر سے متعدد بار فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نہیں ہو سکا۔
بیوی کا بیان:
ہمبستری ہوتی تھی لیکن عزل کیا جاتا تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں ایک طلاق بائنہ واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں اور اس صورت میں شوہر کے پاس مزید دو طلاقیں دینے کا اختیار ہوگا اور اگر بیوی دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو عدت پوری ہونے کے بعد کر سکتی ہے۔
تو جیہ: شوہر کا پہلا جملہ کہ “میری طرف سے تو آزاد ہے” کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے جس سے لڑائی جھگڑے اور غصے کی حالت میں نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ چونکہ مذکورہ صورت میں میاں بیوی کے مابین گفتگو نے لڑائی کی صورت اختیار کر لی تھی اور اسی دوران شوہر نے یہ جملہ بولا تھا، لہذا اس سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی۔ اور شوہر کے دوسرے جملے “میری طرف سے آپ آزاد ہیں” سے لا يلحق البائن البائن کے اصول کی وجہ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
در مختار(521/4) میں ہے:
ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.
(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة
شامی (5/42)میں ہے:
(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع)
شامی(419/4) میں ہے:
(قوله ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة
امداد الاحکام (2/610)میں ہے:
اور چوتھا جملہ یہ ہے کہ “وہ میری طرف سے آزاد ہے” اس کنایہ کا حکم در مختار میں صریح موجود ہے کہ غضب ومذاکرہ میں بدونِ نیت بھی طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔
فتاوی محمودیہ (13/369)میں ہے:
سوال: اگر کسی مرد نے بیوی کو طلاق دیدی اور عدت کے بعد پھر اس سے نکاح کرلیا تو کیا یہ نکاح کے بعد دو طلاقوں کا مالک ہوگا یا نہیں؟
جواب: دوبارہ اسی مطلقہ سے نکاح کرنے کے بعد صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved