- فتوی نمبر: 33-72
- تاریخ: 19 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > تعلیق طلاق
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماءِ دین اس بارے میں کہ میری شادی کو 14 سال ہو گئے ہیں، ہمارے تین بچے ہیں، میرے شوہر شروع سے نشہ اور شراب نوشی کرتے تھے، اسی وجہ سے وہ اکثر بات بات پے مار پیٹ اور گالیاں وغیرہ بھی دیتے تھے، اسی طرح میری اور میرے بچوں کی ضروریات کا بھی خیال نہیں رکھتے تھے، میں گھر پر کام کرکے اپنے اور اپنے بچوں کے سارے اخراجات خود پورے کرتی ہوں۔پچھلے دو سال سے ہمارے درمیان بے تحاشہ جھگڑے اور ناچاقیاں ہوئیں، جس کی وجہ سے وہ مجھے مار تے اور گھر سے نکال دیتے، اسی دوران میں نے اپنے ہی علاقے کے ایک معتبر شخص سے رابطہ کیا، جنہوں نے میرے شوہر کو بلا کر سمجھایا اور مارنے پیٹنے کے حوالے سے بھی وارننگ دی لیکن میرے شوہر کو اس بات پر بے حد غصہ آیا اور انہوں نے مجھ پر قسم ڈالی اور شرط رکھی کہ “آئندہ اگر تم اس شخص کے سامنے آئی یا پھر ان سے کسی قسم کا بھی میل جول رکھا یا اس کا سامنا کیا تو تم مجھ پر طلاق ہو”اور میرے شوہر نے تین دفعہ بلکہ اس سے بھی زیادہ دفعہ مختلف موقعوں پر یہ الفاظ بولے ہیں اور میں یہ بات حلفاً کہہ رہی ہوں لیکن وہ نہیں مانتے۔ کچھ ٹائم بعد پھر ہمارا جھگڑا ہوا، انہوں نے ہاتھ اٹھایا، جس کی وجہ سے میں پانچ، چھ ماہ امی کے گھر رہی اور اس دوران میرا اکثر اس شخص سے آمنا سامنا ہوتا رہا اور ملتی بھی رہی، کیونکہ وہ اس سارے مسئلے کو ہینڈل کر رہے تھے۔اب جب میں نے بچوں کے ساتھ رہنے کے لیے اپنا گھر الگ کرلیا ہے تو میرے شوہر رونے دھونے ڈال کر مجھے صلح کے لیے مجبور کر رہے ہیں، جب کہ اب ان کے ساتھ رہنے کے لیے میرا ضمیر نہیں مانتا۔ برائے مہربانی آپ اس طلاقِ معلق کے بارے میں بتائیں کہ اگر مجھے مجبور ہو کر جانا پڑ جائے تو کیا وہ اب بھی میرے لیے حلال ہیں یا نہیں؟
شوہر کا رابطہ نمبر: *********
دارالافتاء کے نمبر سے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس صورتحال کی تصدیق کی اور مندرجہ ذیل بیان دیا:
میں نے ایک دفعہ شرط کے الفاظ بولے تھے میں اس پر قسم دیتا ہوں، دو تین یا زائد دفعہ والی بات غلط ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً عورت اپنے بیان میں سچی ہے کہ شوہر نے کم از کم تین مرتبہ تعلیق طلاق کے الفاظ کہے تھے تو شرط پائے جانے کی صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں جن کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہوگئی ہے اور رجوع یا صلح کی گنجائش بھی ختم ہوگئی ہے۔ لہذا اس کے بعد بیوی کے لیے شوہر کے پاس جانا جائز نہیں۔ لیکن اگر عورت اپنے بیان میں جھوٹی ہے اور اس نے شوہر سے طلاق کے الفاظ تین دفعہ سے کم سنے ہیں اور وہ غلط بیانی کرکے تین یا زائد مرتبہ کا بتلا رہی ہے تو بیوی شوہر پر حرام نہ ہوگی بلکہ شرط پائے جانے کے بعد بھی عدت کے اندر اندر شوہر کا رجوع کرنا معتبر سمجھا جائے گا۔
توجیہ: طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے جس کی وجہ سے اگر وہ شوہر سے طلاق کے الفاظ سن لے یا اسے کسی معتبر ذریعے سے شوہر کا طلاق دینا معلوم ہوجائے تو وہ اس کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ بیوی کو یقین ہے کہ شوہر نے کم از کم تین دفعہ تعلیق طلاق کے الفاظ استعمال کیے تھے اس لیے وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہے جس کی وجہ سے شرط پائے جانے کے بعد بیوی اپنے حق میں تین طلاق شمار کرنے کی پابند ہے۔
رد المحتار (4/449) میں ہے:
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه
ہدایہ (2/385،باب الایمان فی الطلاق) میں ہے:
و اذا اضافه الى شرط وقع عقيب الشرط مثل ان يقول لامراته ان دخلت الدار فانت طالق
ہندیہ (1/470) میں ہے:
وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.
بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved