- فتوی نمبر: 8-141
- تاریخ: 18 جنوری 2016
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
*** جب اپنے کلائنٹ کو مال ڈیلیور کرتی ہے تو بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ سائٹ(کام کی جگہ) پرسامان رات دیر سے پہنچتا ہے اور وہاں پرکام کرنے والے سب مزدور چھٹی کر کے جا چکے ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں*** اپنے کلائنٹ سے فون پر رابطہ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ کسی وجہ سے آج سامان لیٹ پہنچا ہے اور سائٹ پر آپ کا کوئی بندہ نہیں ہے،البتہ فلاں شخص ہے ،کیا اسے مال دے دیں ؟نیزاگر وہ شخص رسیونگ نہ دے سکتا ہو مثلاً وہ لکھ نہ سکتا ہو تو *** کلائنٹ سے کہتی ہے کہ کیا مال واپس لے جائیں ؟اگر کلائنٹ کہے کہ مال اسی شخص کے پاس اتار دیا جائے تو پھر *** کلائنٹ کی ذمہ داری پر مال وہاں اتار دیتی ہے اور چونکہ کلائنٹ کی اجازت سے مال وہاں اتارا ہے ،لہٰذا کافی حد تک کلائنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے اوراگر سامان میں کچھ کمی ہو تو کلائنٹ اگلے ہی دن *** کو اطلاع کر دیتا ہے کہ یہ سامان کم تھا ۔لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہو تا کہ سامان کم نکلے۔ کیا سائٹ پر موجود شخص کو مال دینا درست ہے؟ نیز اگر اس شخص کے پاس مال میں کوئی نقصان ہو جائے تو اس کی ذمہ داری کس پر ہو گی ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) کلائنٹ کی اجازت سے مال سائٹ (کام کی جگہ) پر موجود آدمی کے حوالے کرنا جائز ہے۔
(2) نقصان کی نوعیت کو دیکھا جائے گا۔ اگر نقصان سائٹ پر موجود شخص کے حوالے کر دینے سے پہلے ہی ہو چکا تھا اگرچہ اس کا علم بعد میں ہوا تو ایسے نقصان کی ذمہ داری *** پر آئے گی۔ اور اگر نقصان سائٹ پر موجود شخص کے حوالے کر دینے کے بعد ہوا ہے تو اس کی ذمہ داری کلائنٹ پر ہو گی۔
دررالحکام شرح مجلة الاحکام: (٣/٥٨٢)
(المادة: ١٤٦٣) المال الذي قبضه الوکیل بالبیع والشراء وإیفاء الدین و استیفائه و قبض العین من جهة الوکالة في حکم الودیعة في یده. فإذا تلف بلا تعد ولا تقصیر لا یلزم الضمان… ضابط: الوکیل أمین علی المال الذي في یده کا لمستودع……………………..فقط والله تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved