- فتوی نمبر: 5-73
- تاریخ: 05 اپریل 2012
- عنوانات: حظر و اباحت > علاج و معالجہ
استفتاء
میں ایم فل اسلامیات کا طالب علم ہوں مجھے کلوننگ سے متعلقہ درج ذیل فقہی سوالات کے جوابات درکار ہیں۔ مہربانی فرما کر قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرما دیں۔
1۔ کیا جنین صرف رحم مادر میں ہوتا ہے۔ اگر مصنوعی طریقے سے رحم سے باہر جنین بنایا جائے تو کیا اس کو بھی جنین قرار دیا جاسکتا ہے؟
2۔ اس جنین کو ضائع کرنے کی صورت میں فقہ میں متعین سزا اور دیت کا اطلاق کیسے اور کس پر ہوگا۔ بیضہ والی عورت پر، جسمانی خلیہ دینے والے مرد پر یا عورت پر یا سائنسدان پر ؟
3۔ کیا رحم سے باہر جنین کے بعض تجربات کے لیے اسے ضائع کرنا قتل کے زمرے میں آتا ہے؟
4۔ اگر عورت کے بیضے سے اسی عورت کے جسم کا خلیہ ملا کر اسی عورت کے رحم میں رکھ دیا جائے تو ایسے بچے کا اس عورت کے شوہر سے کیا رشتہ ہوگا؟
5۔ کیا ایسا بچہ اپنی ماں کے شوہر کے مال میں حصہ دار ہوسکتا ہے؟
6۔ ایسے بچے کا فطری طریقے سے پیدا ہونے والے اپنی ماں کے دوسرے بچوں سے کیا رشتہ ہوگا۔
7۔ اگر ایک عورت کے بیضے سے اسی عورت کے اپنے شوہر کے جسم کا خلیہ ملا کر بچہ کلون کیا جائے تو کیا وہ بچہ صحیح النسب ہو گا۔ جب کہ وہ اس شوہر کے نطفہ سے نہیں بنا؟
8۔ ایسے بچے کا اس جوڑے کے فطری طریقے سے پیدا ہونے والے بچے سے کیا رشتہ ہوگا؟
9۔ اگر ایک عورت اپنے بیضے سے کسی غیر مرد کے جسم کا خلیہ ملا کر کلون بنائے تو کیا یہ بچہ صحیح النسب ہوگا؟
10۔ ایسی عورت پر حد لاگو ہو گی یا نہیں؟ یا اس کو تعزیراً سزا دی جاسکتی ہے یا نہیں؟
11۔ کیا تجربے کے لیے کسی عورت کے بیضہ دان سے بیضہ حاصل کرنا جائز ہے یا نا جائز؟ اگر ناجائز ہے تو پھر سزا کیا ہوگی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ ہاں مصنوعی طریقہ سے رحم سے باہر تولیدی خلیوں کے ملاپ سے بننے والا مادہ کو جنین قرار دیا جاسکتا ہے۔
2۔ اس خارجی جنین کو ضائع کرنے کی صورت میں شرعی سزا اور دیت کچھ نہیں، البتہ گناہ ہوگا۔
قال في الدر المختار: ولا يأثم ما لم يستبن شيء من خلقه قال في الشامية ( قوله و لا يأثم) قال رضي الله عنه و لا أقول به إذ المحرم إذا كسر بيض الصيد يضمن لأنه أصل الصيد فلما كان مؤاخذاً بالجزاء ثمة فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا أسقطت بلا عذر إلا أنها لا تأثم إثم القتل و لا يخفى أنها تأثم القتل لو استبان خلقه بفعلها. (6/ 590 )
3۔ شق نمبر3 واضح نہیں۔ تجربات سے کس قسم کے تجربات مراد ہیں؟
4۔ اگر عورت کے بیضہ سے اسی کے جسم کا خلیہ ملا کر اس عورت کے رحم میں رکھا جائے تو ایسے بچے کا اس عورت کے شوہر سے کوئی رشتہ نہیں ہوگا۔
5۔ ایسا بچہ اپنی ماں کے شوہرکے مال میں حصہ دار نہیں ہوسکتا ۔
6۔ ایسے کلون بچے کا فطری طریقے سے پیدا ہونے والے اپنی ماں کے دوسرے بچوں سے کوئی رشتہ نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ انسانوں میں ابھی تک کلوننگ کامیاب نہیں ہوئی۔
7۔ اگر ایک عورت کے بیضہ سے اس عورت کے اپنے شوہر کے جسم کا خلیہ ملا کر بچہ کلون کیا جائے تو بچہ صحیح النسب نہیں ہوگا اس لیے کہ اس میں شوہر کا تولیدی خلیہ ( Reproductive cell) شامل نہیں اس لیے شوہر کی طرف اس کی نسبت درست نہیں ہوگی اور نہ ہی عورت کی طرف اس کی نسبت درست ہوگی اس لیے کہ عورت کا اگرچہ جنسی خلیہ ( Ovum egg) اس کمپوزیشن میں شامل تو ہوا ہے لیکن بعینہ اور ہو بہو استعمال نہیں ہوا بلکہ اس کا مرکزہ( Nucleu) جو کہ اصل ہوتا ہے اور موروثی خصوصیات کا ضامن ہوتا ہے، اس کو ہٹا کر اس عورت کے دوسرے جسمانی سیل ( Somatic cell) کے مرکزہ سے تبدیل کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ جنسی سیل غیر جنسی ہو جاتا ہے۔
8۔ ایسا بچہ کسی کا بھی وارث نہیں ہوگا، نہ اس عورت کے شوہر کا اور نہ ہی خود اس عورت کا جس کا یہ بچہ کلون ہے۔ نسب ثابت ہونے کے لیے اور وارث بننے کے لیے ضروری ہے کہ بچہ کی پیدائش فطری طریقہ سے ہو یعنی میاں بیوی دونوں کے نطفوں بالفاظ دیگر دونوں کے تولیدی خلیوں سے ہو پھر خواہ یہ تولیدی خلیے بیوی کی رحم میں باہمی مل کر جنین ( Zygote) بنا ہو یا پھر کسی مجبوری کی وجہ سے رحم سے باہر ان کا ملاپ کر کے جنین تیار ہوا ہو اور بعد میں ماں کی رحم میں پرورش کے لیے رکھ دیا ہو جیسا کہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی میں ہوتا ہے۔
9۔ ایسی عورت پر حد لاگو نہیں ہوگی البتہ فطرت کے خلاف عمل میں حصہ لینے کی وجہ سے گنہگار ہوگی۔
10۔ تجربہ کے لیے کسی عورت کے بیضہ دان سے بیضہ حاصل کرنا جائز ہے اس لیے کہ اس سے انسانی خلقت میں تغیر واقع نہیں ہوتا ہے، جیسے خون دینے سے نہیں ہوتا، تو جس طرح خون دینا جائز ہے اس طرح بیضہ دان سے بیضہ لینا بھی جائز ہے۔
11۔ جنین کو ضائع کرنا قتل کے زمرے میں اس وقت آتا ہے جب جنین کو چار ماہ کا عرصہ ہوچکا ہو۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved