- فتوی نمبر: 29-35
- تاریخ: 09 اگست 2023
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
میں ایک کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں، ایک دوست کی کمپنی ہے، کام مشینری امپورٹ کا ہے، مجھے اس کمپنی میں کام کرنے کے متعلق درج ذیل چند سوالات کے جوابات درکار ہیں۔
ہماری کمپنی یورپ اور چائنا وغیرہ کی کچھ کمپنیز کی پاکستان میں ڈسٹریبیوٹر ہے، جومشیری ہماری کمپنی امپورٹ کرتی ہے اس میں سے بعض اوقات کچھ تو ہم اپنے اسٹاک میں رکھتے ہیں لیکن زیادہ اسٹاک رکھنے کیلیے کیونکہ بہت زیادہ رقم اور جگہ درکار ہے اسلیے اسٹاک زیادہ نہیں رکھ سکتے۔اکثر اوقات پہلے مشین کی ڈیٹیلز ( details )اورکیٹیلاگ (catalogues )وغیرہ جو ہم سپلائر کی ویب سائٹ سے لیتے ہیں، اپنے کسٹمر کو دکھا کر ایک قیمت طے کر لیتے ہیں اور کچھ رقم یا آدھی قیمت بطور ایڈوانس لے لیتے ہیں تا کہ وہ کسٹمر بعد میں مشین لینے سے انکار نہ کر دے۔ پھر ہم اپنی پرنسپل ( principal )مشین بنانے والی کمپنی کو آرڈر کنفرم کرتے ہیں اور پھر تقریباً 4 سے 6 ہفتے یا کچھ اور ٹائم کے بعد وہ کمپنی مشین بھیجتی ہے تو اتنا عرصہ میں کرنسی ایکسچینج ریٹ (exchange rate ) میں کچھ نا کچھ کمی بیشی ہو چکی ہوتی ہے جسکی وجہ سے جو پرافٹ ہم نے پہلے اندازہ لگایا ہوتا ہے اس سے کچھ کم یازیادہ ہو جاتا ہے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ اسطرح سے کسی مشین کی اپنی ملکیت ہونے سے پہلے اسکا بیچنے کا سودا کرنا کیسا ہے؟
یہی طریقہ کار ہمارے گورنمنٹ کے اداروں مثلاً آرمی وغیرہ کا ہے کہ جب وہ کوئی مشینری خرید نے کیلیے tender (ٹینڈر) کرتے ہیں تو پہلے سب سپلائیرز سے کوٹیشن( quotation )لے کر جو کم سے کم رقم کوٹ quote کرتا ہے اسکو آرڈر دے دیتے ہیں اور کیونکہ کوٹیشن( quotation )میں لکھا ہوتا ہے کہ ڈیلیوری تقریباً 2 سے 3 ماہ بعد ہوگی اسلیے وہ آرڈر کے وقت ہی پرائس لاک( price lock) کروالیتے ہیں۔ جب آرڈر کنفرم ہو جاتا ہے تو پھر ہم یا ہماری طرح کوئی دوسری کمپنی جسکو آرڈر ملتا ہے وہ اپنی پرنسپل( principal) کو آرڈر دیتے ہیں اور پھر وہ پرنسپل( principal ) کمپنی مشین بناتی ہے اور ہمیں ایکسپورٹ کرتی ہے، یعنی جس مشین کو ہم نے بیچنے کا معاہدہ کیا کسی بھی کمپنی یا گورنمنٹ ادارے،انڈس موٹر کمپنی (Indus Motor Company)، یا کسی اور ایسی ہی کمپنی سے وہ مشین جو ابھی ہماری کمپنی کی ملکیت نہیں تھی، بلکہ جس سے ہم امپورٹ کرینگے اسکے پاس بھی اکثر تیار نہیں ہوتی بلکہ وہ کچھ ہفتوں میں تیار کر کے پھر بھیجتے ہیں۔
میں معلوم یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایسی کمپنی میں امپورٹ اورا کا ؤنٹس کی جاب کرنا جو اس چیز کو بیچتی ہے جو اسکی ملکیت میں نہیں کیسا ہے؟
بعض آئٹمز مثلاً بینچ ،ٹرالیز اور سٹینڈ ( trolleys and stand / bench) وغیرہ یہیں کراچی کے کسی فیبر یکیٹر سے بنواتے ہیں جسکا طریقہ کار یہ ہے کہ جب ہمارا کوئی کسٹمر ہم سے ٹرالی یا اسٹینڈ وغیرہ خریدنا چاہتا ہے تو ہم پہلے جو فیبر یکیٹر ہے اس سے بنوانے کی قیمت طے کر لیتے ہیں پھر اپنا پرافٹ اسمیں ایڈ کر کے اپنے کسٹمر کوکوٹیشن (quotation )دیتے ہیں مثلاً ہمیں وہ فیبر یکیٹر کہتا ہے کہ بیس ہزار روپے میں ٹرالی بنا کر دونگا اور 2 ہفتہ میں بن کر تیار ہوگی تو ہم اپنے کسٹمر کو چھبیس یا ستائیس ہزار کی کوٹیشن ( quotation) دیتے ہیں پھر جب وہ اس پر اپنا آرڈر کنفرم کر دیتا ہے تو ہم فیبر یکیٹر کو کچھ رقم بطور ایڈوانس دے کر اسکو آرڈر کنفرم کر دیتے ہیں، اسطرح 2 یا 3 ہفتہ یا کچھ اور ٹائم میں وہ بنا کر ہمیں دیدیتا ہے اور ہم اپنے کسٹمر کو دے کر اپنی وہ ہی طے کردہ قیمت وصول کر لیتے ہیں، اس میں بھی ظاہری طور پر جس چیز کی بیع ہورہی ہے وہ چیز ہماری کمپنی کی ملکیت نہیں ہے اور ہم جس فیر یکیٹر سے بنوا ر ہے ہیں اسکے پاس بھی تیار نہیں ہوتی۔ تو اسطرح کی کمپنی میں اکاؤنٹس کی جاب کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اور اگر مجھے کہیں اور اس ہی طرح کی نوکری مل جاتی ہے تو اکثر امپورٹ کے کام میں یہی طریقہ کار ہے تو مجھے مکمل طور پر پاک حلال روزگارکیلیے کیا طریقہ کا راختیار کرنا چاہیے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ اس طرح کی کمپنی کے بارے میں آرڈر کرنے والوں کو بھی پتا ہوتا ہی ہے کہ یہ آگے کسی اور کمپنی سے مطلوبہ سامان بنوا کر دے گی اسی لیے یہ کمپنی کچھ دن کی مہلت بھی لیتی ہے فورا وہ چیز مہیا نہیں کرتی اس لیے ایسی کمپنی کو کسی چیز کا آرڈر کرنا بھی استصناع (آرڈر پر مال بنوانا) کے حکم میں ہی ہوگا جس کی اصل ہی یہ ہے کہ بیچنے والاآرڈر پر مال بنا کر یا بنوا کر چیز مہیا کرتا ہے ، اس کی ملکیت میں پہلے سے وہ چیز ہونا ضروری نہیں ہوتا ، اس لیے مذکورہ طریقہ اور ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا جائز ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved