• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کوریئر کمپنی سے نقصان کی تلافی کروانا

استفتاء

مشروم کمپنی سلے ہوئے کپڑے بنا کر فروخت کرتی ہے۔ اس کمپنی کی پورے پاکستان میں دکانیں ہیں۔ لاہور سے مال تیار کروا کر کوریئر کے ذریعے دکانوں پر بھیجا جاتا ہے۔ جس کوریئر کمپنی کے ذریعے مال بھجوایا جاتا ہے وہ کمپنی تقریباً 25 سال سے مشروم کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ باقاعدہ کوئی لکھا ہوا معاہدہ نہیں۔ یہ کوریئر کمپنی مال خود نہیں پہنچاتی بلکہ آگے کسی اور کوریئر کمپنی کے ذریعے بھیجتی ہے۔ کھبی کبھار اگر کوئی نقصان ہو جائے مثلاً کارٹن میں سے ایک، دو پیس کسی نے راستہ میں چوری کر لیے تو کوریئر کمپنی (جو مشروم سے مال لیتی ہے) اس نقصان کو پورا کر دیتی ہے۔ البتہ حال ہی میں ایک واقعہ پیش آیا کہ جس کنٹینر میں کوریئر کمپنی نے مال بھجوایا اس میں سے کچھ مال چوری ہو گیا۔ رستہ میں کسی نے کنٹینر کا دروازہ کھول کر کچھ چیزیں چوری کر لیں۔ ڈرائیور کو تب پتہ چلا جب کسی پٹرول پمپ پر رکا، تو دیکھا کہ کنٹینر کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ مشروم کمپنی کے دو کارٹن بھی اس واقعے میں چرائے گئے۔ اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کی کچھ اور چیزیں بھی چوری ہوئیں۔ اب مشروم کمپنی کورئیر والوں سے اس نقصان کو پورا کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ان دو کارٹنز میں جو مال تھا اس کی قیمت فروخت (Tag Price) تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار روپے (1،80،000) تھی۔ مشروم کمپنی کوریئر والوں سے اسی رقم کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جبکہ کوریئر کمپنی کا کہنا ہے کہ مشروم ہمارے ساتھ کچھ تعاون کرے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم چھوٹا موٹا کلیم تو دے سکتے ہیں، لیکن اتنا بڑا کلیم نہیں دے سکتے۔ اس میں ہمیں بہت نقصان ہے۔ چوری کے واقعہ کی FIR بھی کوریئر کمپنی نے مشروم کو دکھائی ہے۔

مذکورہ صورت میں مشروم کو شرعی رہنمائی درکار ہے کہ وہ کس حد تک اپنا نقصان پورا کروا سکتی ہے؟ جو مال چوری ہوا ہے اس کی قیمت فروخت تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار روپے (1،80،000) ہے۔ بازاری (Market Price) تقریباً ایک لاکھ روپے (100000) اور یہ مال مشروم کو تقریباً 70 ہزار روپے کا پڑا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ’’مشروم کمپنی‘‘ 70 ہزار روپے تک (جو کہ اس کی کاسٹ بھی ہے)  ’’کوریئر کمپنی‘‘ سے اپنا نقصان پورا کروا سکتی ہے۔

اس کی توجیہ اور تفصیل یہ ہے:

’’کوریئر کمپنی‘‘ اجیر مشترک کے حکم میں ہے اور اجیر مشترک سے اگر نقصان ہو جائے تو اس کی مندرجہ ذیل چار  صورتیں ہیں:

1۔ نقصان اجیر کے فعل سے ہو اور اجیر کی اس میں کوتاہی بھی ہو۔

2۔ نقصان اجیر کے اپنے فعل سے ہو، اور اجیر کی  اس میں کوتاہی نہ ہو۔

3۔ نقصان اجیر کے فعل سے نہ ہو بلکہ کسی ایسے سبب سے ہو جس سے بچنا ممکن نہ ہو۔ مثلاً بڑی آگ کہیں لگ جائے، اور اس کے نتیجے میں سامان جل جائے۔

4۔ نقصان اجیر کے اپنے فعل سے تو نہ ہو لیکن کسی ایسے سبب سے ہو جس سے بچنا ممکن ہو۔ مثلاً سامان چوری ہو جائے۔

ہماری زیر بحث صورت چوتھی ہے۔ پہلی دو صورتوں میں اجیر بالاتفاق ضامن ہو گا۔ اور تیسری صورت میں بالاتفاق ضامن نہ ہو گا۔ البتہ چوتھی صورت (جوکہ ہماری زیر بحث صورت بھی ہے) میں اختلاف ہے۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مؤقف یہ ہے کہ اس چوتھی صورت میں بھی اجیر ضامن نہ ہو گا۔ جب کہ صاحبین رحمہما اللہ کا مؤقف یہ ہے کہ اس چوتھی صورت میں مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت کا ضامن ہو گا۔ اگرچہ بعض حضرات نے اس چوتھی صورت میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر بھی فتویٰ دیا ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر متاخرین فقہاء نے بدلے ہوئے حالات اور لوگوں کے اموال کے تحفظ کے پیش نظر امام صاحب کے قول کے بجائے صاحبین رحمہما اللہ کے قول پر فتویٰ دیا ہے۔

تیسرا مؤقف بعض متاخرین فقہاء کا یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں (یعنی اجیر اور مستاجر) کو نصف قیمت پر صلح کرنے پر مجبور کیا جائے۔ یہ ساری تفصیل مندرجہ ذیل عبارات سے ثابت ہے۔

الشامية (9/ 109):

اعلم أن الهلاك إما بفعل الأجير أو لا، و الأول: إما بالتعدي أو لا. و الثاني: إما أن يمكن الاحتراز عنه أو لا. ففي الأول بقسيميه يضمن اتفاقاً. في ثاني الثاني لا يضمن اتفاقاً، و في أوله لا يضمن عبد الإمام مطلقاً، و يضمن عندهما مطلقاً، وأفتى المتأخرون بالصلح على نصف القيمة مطلقاً … و قولهما قول عمر و علي،  به يفتى احتشاماً لعمر و علي و صيانة لأموال الناس، و الله أعلم اه. و في التبيين و بقولهما يفتى لتغير أحوال الناس و به يحصل صيانة أموالهم اه. لأنه إذا علم أنه لا يضمن ربما أنه يدعي أنه سرق أو ضاع من يده. في الخانية و المحيط و التتمة: الفتوى على قوله، فقد اختلف الافتاء ….

(أفتى المتأخرون بالصلح) أي عملاً بقولين، و معناه: عمل في كل نصف بقول حيث حط

النصف وأوجب النصف. بزازية.

و في الهندية (4/ 500):

سواء هلك بأمر يمكن التحرز عنه كالسرقة و الغصب أو بأمر لا يمكن التحرز عنه كالحرق الغالب و الغارة الغالب و المكابرة.

ہماری زیر بحث صورت میں مال کی مارکیٹ ویلیو تقریباً ایک لاکھ روپے ہے اور اس کی لاگت (Cost) تقریبا 70 ہزار روپے ہے۔اس صورت حال میں ہمارے سامنے تین راستے ہیں:

1۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر فتویٰ دیں۔ لیکن امام صاحب رحمہ اللہ کے قول پر فتویٰ دینے کی صورت میں مستاجر (مشروم کمپنی) کا سراسر نقصان ہے۔

2۔ صاحبین رحمہما اللہ کے قول پر فتویٰ  تو اس صورت  میں اگرچہ مستاجر (یعنی مشروم کمپنی)  کا فائدہ ہے۔ لیکن اس میں ایک تو اجیر (یعنی کوریئر کمپنی) کا نقصان ہے اور دوسرے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو بالکلیہ نظر انداز کرنا ہے (چنانچہ نصف قیمت پر صلح کرنے والے حضرات نے اسی لیے نصف قیمت پر صلح کا کہا، تاکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کا کچھ نہ کچھ خیال رہ جائے)۔

3۔ بعض متاخرین فقہاء کے قول کے مطابق نصف قیمت پر صلح کا فتویٰ دیں۔ مذکورہ صورت میں نصف قیمت تقریباً پچاس ہزار روپے بنتی ہے۔ اس میں اگرچہ اجیر (یعنی کوریئر کمپنی) کا فائدہ ہے۔ لیکن اس میں مستاجر (یعنی مشروم کمپنی) کا نقصان ہے، کہ انہیں ان کی کاسٹ بھی نہیں مل رہی۔

لہذا ہمارے لیے سوائے اس کے اور کوئی چارہ کار نہیں کہ ہم اجیر (کوریئر کمپنی) کو مشروم کمپنی کی کاسٹ یعنی تقریباً 70 ہزار روپے کے بقدر ضامن بنائیں۔

ایسا کرنے میں جہاں دونوں فریق یعنی اجیر (کوریئر کمپنی) اور مستاجر (مشروم کمپنی) کی رعایت ملحوظ رہے گی وہاں تقریباً تینوں اقوال یعنی امام صاحب رحمہ اللہ اور قول صاحبین رحمہما اللہ کے قول اور نصف قیمت پر صلح والے قول میں سے ہر ایک کی کچھ نہ کچھ رعایت بھی رہے گی، اور لوگوں کے مالوں کا تحفظ بھی برقرار رہے گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved